پاکستان

کارکنوں پر تشدد، پی ٹی آئی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی

عمران خان کی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات،طاقت کےاستعمال پروفاق اورپنجاب حکومت کےخلاف قانونی راستہ اپنانے کا فیصلہ

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر یکے بعد دیگرے دو اہم اجلاس کی صدارت کی جس میں ان رپورٹس کا جائزہ لیا گیا کہ خیبر پختونخوا کے کارکن 2 نومبر کے لاک ڈاؤن کے حوالے سے پنجاب کے کارکنوں کی بظاہر عدم شرکت پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

عمران خان نے پہلے اجلاس میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے سپریم کورٹ میں جاری پاناما لیکس کے حوالے سے جاری کیس کی حکمت عملی پر غور کیا۔

دوسری ملاقات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور ان کی کابینہ کے ساتھ ہوئی جس میں پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر پنجاب اور وفاقی حکومت کے قانونی راستہ اختیار کرے گی۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے درمیان ہونے والی مشاورت میں یہ بات سامنے آئی کہ خیبر پختوانخوا چیپٹر میں خفگی پائی جاتی ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ پارٹی پنجاب میں کارکنوں کو متحرک کرنے میں ناکام رہی اور اس کے بجائے احتجاج کو آگے بڑھانے کے لیے خیبر پختوانخوا کے کارکنوں پر انحصار کیا گیا۔

ان کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کی جانب سے آخری وقت میں دھرنے کی کال واپس لینے کی بھی یہی وجہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا 2 نومبر کا دھرنا یوم تشکر میں تبدیل

تاہم پارٹی کا موقف یہ ہے کہ عمران خان نے خونریزی کے خدشے کے پیش نظر دھرنا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

خیبر پختونخوا کے کئی عہدے داران اور کارکن عمران خان کے اس فیصلے سے مایوس ہیں کہ انہوں نے پنجاب کی اعلیٰ قیادت کو بنی گالہ میں اپنے گھر پر مقیم رکھا جبکہ وہ پنجاب اور کے پی کے کی سرحد پر پنجاب پولیس کے حملے کا سامنا کرتے رہے۔

خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ ’کے پی کے کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اگر سب سے بڑے صوبے کے کارکن بھی پوری قوت سے ساتھ شرکت کرتے تو پی ٹی آئی کا شو مزید طاقتور ہوتا‘۔

رکن اسمبلی نے ںام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ عمران خان عمران خان نے جوش سے عاری رسپانس کا نوٹس لیا جس کا اندازہ 2 نومبر کو یوم تشکر کی ریلی میں ان کی باڈی لینگوئج سے ہورہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کم سے کم شمالی پنجاب کے لوگوں کو نکلنا چاہیے تھا تاکہ حکومت کی توجہ منتشر ہوتی یہی وجہ ہے کہ پارٹی چیف کو اپنا منصوبے تبدیل کرنا پڑا۔

اندرونی اختلافات

سامنے آنے والی اطلاعات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی کے راولپنڈی چیپٹر میں اندرونی اختلافات وہاں کے کارکنوں کی عدم شرکت کی بنیادی وجہ تھے۔

اس سلسلے میں جب پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پنجاب کے کارکنوں کی شرکت کم رہی۔

مزید پڑھیں: ’مجرم وزیر اعظم کو بچانے کے لیے ریاستی مشینری استعمال ہورہی ہے‘

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے احتجاج سے کئی روز قبل ہی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا اور ہزاروں ورکرز کو جیل میں ڈال دیا تھا جبکہ پولیس نے اہم شاہراہوں کو بھی کنٹینرز لگاکر بند کردیا تھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جہانگیر ترین اور انہوں نے ملتان اور لودھراں میں مظاہرین کی قیادت کیوں نہیں کی تو انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ گرفتاریاں ان کے حلقے میں ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ یونین کونسل کی سطح کے بھی کئی عہدے داروں کو پولیس نے اٹھالیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کارکنوں کو منظم کرنے کے لیے ملتان میں کنونشن کا انعقاد کیا تھا جس میں عمران خان نے بھی شرکت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو اسلام آباد تک لانے کی ذمہ داری پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے کو سونپی گئی تھی جو انہوں نے ادا کی۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ عمران خان نے جہانگیر ترین اور انہیں کہا تھا کہ وہ دونوں بنی گالہ آجائیں تاکہ بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے مشاورت کی جاتی رہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت میں ہمت ہے تو گرفتار کرلے، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ ان کی موجودگی بنی گالہ میں ضروری تھی تاکہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کی جاسکے اور ملک بھر سے موصولہ اطلاعات کے حساب سے ہدایات جاری کی جاسکیں یہی وجہ ہے کہ بنی گالہ کو احتجاجی تحریک کا مرکز بنایا گیا۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ برہان انٹرچینج پر صورتحال کو دیکھتے ہوئے مشاورت کے بعد عمران خان نے صبح 6 بجے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو فون کیا اور کہا کہ وہ خون خرابہ نہیں چاہتے۔

پارٹی ترجمان نے بھی اس دعوے کو مسترد کیا کہ عمران خان نے پارٹی کے کسی اجلاس میں پنجاب کے کارکنوں کی عدم شرکت پر ناراضی کا اظہار کیا۔

یہ خبر 6 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی