پاکستان

شاہراہ قراقرم کی چوڑائی سی پیک ٹریفک کیلئے نامناسب قرار

سینیٹ کمیٹی نے فوری طور پر شاہراہ قراقرم کو چوڑا کرنے اور عطاء آباد جھیل کے کناروں کی مضبوطی بڑھانے کی تجاویز دے دیں۔

اسلام آباد: پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے حوالے سے قائم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اپنی تیسری عبوری رپورٹ میں کہا ہے کہ مستقبل میں سی پیک کے نتیجے میں سامنے آنے والے ٹریفک کے لیے شاہراہ قراقرم کی چوڑائی نامناسب ہوگی۔

کمیٹی کی جانب سے عطاء آباد جھیل کے نزدیک بسنے والے لوگوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ ہائی وے پر جاری ترقیاتی کاموں کی وجہ سے جھیل کے کنارے کمزور ہوچکے ہیں اور وہاں دراڑیں پڑچکی ہیں۔

کمیٹی نے فوری طور پر جھیل کے کناروں کی مضبوطی بڑھانے اور شاہراہ قراقرم کو چوڑا کرنے کی تجاویز دی ہیں تاکہ مستقبل میں سی پیک کے ذریعے تجارتی معاملات میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

عطاء آباد جھیل

سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ لوگوں میں عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ہائی وے کی تعمیر کے لیے کیے جانے والے دھماکوں کے نتیجے میں پہاڑ کمزور ہوئے اور یوں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں عطاء آباد جھیل بنی، لیکن دریائے ہنزہ کے ایک دوسرے کنارے پر بھی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے جہاں نہ کوئی روڈ موجود ہے اور نہ ہی کوئی دھماکے کیے گئے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی مقامات پر دریاؤں کے راستے بند ہونے کے باعث جھیلیں بن چکی ہیں جبکہ کئی دوسرے مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ڈیمز بھی وجود میں آئے لیکن پانی کے دباؤ کی وجہ سے ان ڈیمز میں شگاف پڑے اور یہ ٹوٹ گئے جس سے پانی کا بہاؤ پاس موجود آبادیوں کو بہا لے گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر خدشات

رپورٹ کے مطابق جب تک پانی کے گزرنے کا راستہ نہیں بن جاتا اور کناروں کو مضبوط نہیں کردیا جاتا یہی خطرہ عطاء آباد جھیل کے آس پاس موجود علاقوں کو بھی ہے۔

شاہراہ قراقرم کی چوڑائی

کمیٹی نے شاہراہ قراقرم کی موجودہ چوڑائی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور رپورٹ میں کہا گیا کہ مستقبل میں سی پیک کے نتیجے میں سامنے آنے والے ٹریفک کے بہاؤ کے لیے شاہراہ قراقرم کی موجودہ چوڑائی ناکافی ہوگی، شاہراہ کے کناروں پر 3 میٹر تک موجود کنٹینرز، ایک جانب موجود اونچے پہاڑ اور دوسری جانب موجود گہری کھائی کی موجودگی میں ٹریفک کے بہاؤ میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شاہراہ قراقرم کی محدود چوڑائی کی وجہ سے یہاں حادثات رونما ہونا معمول کی بات ہے اور سی پیک کے ٹریفک کے بعد اس علاقے میں موجود لوگوں اور سیاحوں کے لیے آمد و رفت مشکل اور خطرناک ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: سی پیک کوکرپشن سے بچانے کیلئے مشترکہ نگرانی

کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ شاہراہ قراقرم کی موجودہ چوڑائی کے ساتھ یہاں ٹریفک کی رفتار انتہائی سست ہوجائے گی اور شاہراہ پر موجود موڑ اور جھکاؤ کی وجہ سے ڈرائیورز کے لیے بھی راستہ مشکل ہوجائے گا، اس طرح شاہراہ قراقرم پر سفر خطرناک اور وقت طلب ہوجائے گا۔

ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کی جانب سے دریا کے دوسرے کنارے پر فوری ہائی وے کی تعمیر کی تجویز دی گئی ہے اور ہر 10 کلومیٹر کے فاصلے پر دونوں ہائی ویز کو منسلک کرنے کے لیے پل (کُل 40 پل) تعمیر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں سڑکوں پر گاڑیاں ایک سمت میں چلائی جانی چاہئیں تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔

متبادل رُوٹ

کمیٹی کی جانب سے شندور پاس کے ذریعے گاہکوچ تا شندور اور چترال کو جوڑ کر سی پیک کے لیے متبادل روٹ بنانے کی تجویز بھی دی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحصیل پلندر میں گاہکوچ تا گلاگ مولی 120 کلو میٹر طویل پکی سڑک موجود ہے، جبکہ گلاگ ملی تا شندور پاس 27 کلومیٹر سڑک کچی ہے، شندور پاس سے آگے بون تک موجود 60 کلومیٹر طویل سڑک بھی کچی ہے، بون اور چترال کے درمیان 80 کلومیٹر طویل راستہ پکا ہے، یوں چترال سے آگے سوات موٹروے تک پہنچا جاسکتا ہے اور سی پیک روٹ تک پہنچنے کے لیے خیبرپختونخوا کی موجودہ سڑکوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس متبادل راستے کے لیے صرف 90 کلومیٹر سڑک کو پکا کرنا ہوگا جو کہ اتنا مشکل کام نہیں، کمیٹی کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی کہ اس موقع کو ترجیح دی جانی چاہیئے۔

بجلی

رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے 36 بلین ڈالرز مختص کیے گئے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ سی پیک کا ایک ڈالر بھی گلگت بلتستان میں توانائی کی پیداوار کے لیے مختص نہیں کیا گیا۔

کمیٹی کی جانب سے تجویز دی گئی کہ علاقے کے تمام پاور پراجیکٹس سے منسلک ہائی پاور گرڈ پر جلد از جلد کام شروع کیا جائے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ چلاس، ڈیامیر بھاشا ڈیم اور شندور کے مقامات پر بھی گرڈ قائم کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ ایک تیسرا گرڈ اسکردو اور وادی نیلم کے درمیان قائم کیا جاسکتا ہے تاکہ منگلا ڈیم پروجیکٹ تک رابطہ ممکن ہوسکے۔

گلگت ایئرپورٹ کی توسیع

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد اور گلگت کے درمیان سفر کے لیے چھوٹے اے ٹی آر 42 طیاروں کی پرواز مناسب ہے جبکہ بی 737 جیسے بڑے طیاروں کے لیے محفوظ لینڈنگ مشکل ہوتی جارہی ہے۔

لہذا اسلام آباد اور گلگت کے درمیان بڑھتے ہوئے ہوائی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کمیٹی کی جانب سے اے ٹی آر 42 طیاروں کی پروازیں بڑھا کر روزانہ 4 پروازیں اور ہفتہ وار پروازیں 50 تک لے جانے کا مشورہ دیا گیا۔

یہ خبر 7 نومبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی