کشمیریوں کی جدوجہد کو نمایاں کرتا نیا قومی ترانہ
مظفر آباد میں ایک نیا قومی ترانہ جاری کردیا گیا جو ہندوستان کے زیرتسلط کشمیر کے حالات سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔
'کشمیر جو پاکستان بھی ہے،
یہ جنت ارضی،
یہ وادی،
یہ اس کا نصیب اب آزادی'
یہ اس نئے ترانے کے الفاظ ہیں اور اس کے پروڈیوسر مشہوراداکار معین اختر کے داماد عمر احسن ہیں اور اس کو آئی کیو جینیئس میڈیا کی جانب سے جاری کیا گیا۔
ترانے کی افتتاحی تقریب کے دوران ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے عمر احسن نے کہا کہ 'مجھے ہندوستانی فوجیوں کی ناختم ہونے والی بربریت اور کشمیری عوام کی لازوال مزاحمت نے متاثر کیا کہ میں کشمیر کے نام سے ایک قومی ترانہ لکھوں'۔
عمراحسن نے ایم بی اے کے بعد سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کررکھی ہے جبکہ پاکستانی فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف شروع کی گئی مہم ضرب عضب کے لیے سات سے زائد ترانے پیش کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے مقبوضہ کشمیر میں پیلٹس اور گولیوں سے چھلنی لوگوں کی تصاویر دیکھیں تو بہت درد ہوا اور میں نے کشمیریوں کی جدوجہد پر ترانا بنانے کا سوچا، مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس طرح کا کوئی ترانہ موجود نہیں تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں 4 ماہ سے اسکول بند ہونے کے باوجود امتحانات
احسن نے کہا کہ 8 ستمبر کو یہ ترانہ بنانے کا ارادہ کیا اور اس منصوبے کے لیے مختلف شاعروں اور مصنفین کو دعوت دی گئی۔
عمراحسن نے 25 ستمبر کو موصول ہونے والے چار ترانوں میں سے ایک صابر ظفر کی کاوش کو منتخب کیا اور اس ترانے کو کراچی سے تعلق رکھنے والے موسیقار وگلوکار وقارعلی نے مرتب کیا۔
صابر ظفر نے کئی قومی ترانے لکھے ہیں جس میں 'ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار' بھی شامل ہے۔
گوکہ فن کاروں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں جاری منصوبوں میں نقصان کے خدشے کے باعث کشمیریوں کے حق میں گانے سے گریزاں تھی تاہم علی عظمت، عمیر جیسوال اور علیشیا ڈائس نے اس ترانے کو گانے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمر جیسوال ترانہ گانے کے حوالے سے اپنی پوسٹ کے بعد فیس بک پر سرحد کے اس پار سے 18 ہزار مداحوں سے محروم ہوئے۔
ترانے کی آڈیو ریکارڈنگ 22 اکتوبر کو مکمل ہوئی اور ویڈیو کی تیاری میں مزید دو ہفتے لگے اور منصوبہ 5 نومبر کو مکمل ہوگیا تھا۔
ابتدائی طورپر ترانے کو 12 نومبر کو کراچی میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن جگہ کو اس لیے تبدیل کیا گیا کہ مظفر آباد اس علاقے کے قریب تھا جہاں پر ہندوستانی بربریت اپنے عروج پر ہے۔
عمراحسن نے کہا کہ 'اس ترانے کے ذریعے ہم اپنی یک جہتی کا اظہار اور پوری دنیا میں کشمیریوں کے مصائب کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ترانے کا اجرا مہم کا پہلا قدم ہے اور ہم کشمیریوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، ترانے کا کچھ حصہ ہندی میں ہوگا تاکہ ہندوستانی بھی اپنی حکومت کی بے رحمی کو جان سکیں'۔
یہ خبر 15 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔