امداد علی کی ذہنی حالت جانچنے کیلئے ماہرین کے نام عدالت میں جمع
اسلام آباد: ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سزائے موت کے مجرم امداد علی کی ذہنی حالت کی جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی غرض سے 10 نام سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ذہنی مریض امداد علی کی پھانسی کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے میڈیکل بورڈ کے لیے دس نام عدالت میں جمع کروائے۔
یاد رہے کہ 14 نومبر کو مذکورہ کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے امداد علی کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے 5 ماہرِ ذہنی امراض کے نام طلب کیے تھے۔
مزید پڑھیں:امداد علی کی ذہنی حالت جانچنےکیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست منظور
سماعت کے دوران عدالت نے جیل حکام کی جانب سے جیل ریکارڈ (ہسٹری ٹکٹ) مرتب نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس امیرہانی مسلم نے استفسار کیا کہ امداد علی 7 سال جیل میں رہا اس کا ہسٹری ٹکٹ کیوں مرتب نہیں کیا گیا، جبکہ ملزم کی بیماری یا ذہنی حالت کی تشخیص کرنا جیل قانون میں ہے۔
جیل کے لاء افسر نے جواب دیا کہ جیل میں یہی ہسٹری ٹکٹ چلتی ہے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہی ہسٹری ٹکٹ ہے، تو قانون بدل دیں۔
معزز جج کا کہنا تھا کہ اگر کسی سزا یافتہ ملزم کی حالت ایسی ہو جو چل کر پھانسی گھاٹ تک نہ جاسکتا ہو تو پہلے اس کا طبی معائنہ ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ذہنی معذور امداد علی کی پھانسی روک دی گئی
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ملزم کی حالت درست نہ ہو تو پھانسی دینا مناسب نہیں۔
دوسری جانب مدعی کے وکیل نے دلائل دیئے کہ اس کیس کے معاشرے میں برے اثرات مرتب ہوں گے اور سپریم کورٹ سے سزائے موت پانے والے ملزمان بھی درخواستیں دائر کرنا شروع کردیں گے۔
بعدازاں عدالت نے امداد حسین کی ذہنی حالت پر میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا معاملہ آئندہ سماعت تک موخر کرتے ہوئے کیس کی سماعت جمعہ 18 نومبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 50 سالہ امداد علی کو 2002 میں ایک عالم دین کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی پھانسی رکوانے کے لیے سرگرم تھیں۔
یہاں پڑھیں:ذہنی معذور شخص کی پھانسی کے خلاف احتجاج
امداد علی کی پھانسی کے خلاف سرگرم عمل انسانی حقوق کی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کا کہنا تھا کہ 'امداد علی ذہنی طور پر معذور اور 'پیرانائیڈ شیزوفرینیا' کا شکار ہے اور کئی سالوں سے اس کا مناسب علاج نہیں کروایا گیا'، لہذا پاکستان کو شیزوفرینیا کے شکار ایک ذہنی معذور شخص کو سزائے موت نہیں دینی چاہیے۔
امداد علی کو رواں برس 20 ستمبر کو سزائے موت ہونی تھی تاہم تاہم جے پی پی کی جانب سے دائر درخواست کے بعد سپریم کورٹ نے اسے موخر کردیا تھا، بعدازاں سپریم کورٹ نے جے پی پی کی درخواست خارج کردی تھی۔
مزید پڑھیں:ذہنی معذور شخص کی پھانسی کا فیصلہ برقرار
سپریم کورٹ نے امداد علی کی پھانسی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ شیزوفرینیا کوئی مستقل ذہنی بیماری نہیں ہے۔
جس کے بعد امداد علی کی پھانسی کے لیے 2 نومبر کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور انھیں وہاڑی جیل میں پھانسی دی جانی تھی، تاہم امداد کی اہلیہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کی گئی، جس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔