پاکستان

بلاول بھٹو کب اور کس حلقے سے الیکشن لڑیں گے؟

چیئرمین پیپلز پارٹی کے پاس لاڑکانہ کے دو حلقوں این اے 204 اور 207 سے انتخاب میں حصہ لینے کا آپشن موجود ہے۔

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا ذہن تو بنالیا ہے تاہم اب تک وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ کب اور کس حلقے سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی قیادت نے یہ فیصلہ مکمل طور پر بلاول بھٹو زرداری پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی نانی نصرت بھٹو کے حلقے سے لڑنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے حلقے سے کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق 28 سالہ چیئرمین پیپلز پارٹی کو اپنے آبائی علاقے لاڑکانہ کے دو حلقوں این اے 204 اور این اے 207 میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

ان دونوں حلقوں کو بھٹو خاندان کی روایتی نشستیں سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں این اے 204 سے نصرت بھٹو اور 207 سے بے نظیر بھٹو کامیاب ہوتی رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول کا قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ

2013 کے عام انتخابات میں این اے 204 سے ایاز سومرو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور این اے 207 کی نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت نے پہلے ہی ایاز سومرو سے استعفیٰ مانگ لیا ہے تاکہ اگر بلاول بھٹو این اے 204 سے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کریں تو اسے فوری طور پر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

اس حوالے سے ایاز سومرو سے رابطہ کرنے کی متعدد بار کوششیں کی گئیں تاہم ان سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔

پیپلز پارٹی کے زیادہ تر رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کے چیئرمین این اے 204 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کریں گے کیوں کہ وہ اپنی پھوپی سے نشست خالی کرانا پسند نہیں کریں گے۔

تاہم پیپلز پارٹی کے عہدے دار اور سینئر رہنما نے دعویٰ کیا کہ اگر بلاول این اے 207 سے الیکشن لڑنا چاہیں تو فریال تالپور اپنی نشست چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: 'عمران خان مجھے سیاست سکھائیں گے؟'

مزید برآں، ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کو کراچی کے علاقے لیاری سے کھڑا کرنے کا آپشن بھی موجود ہے جسے پیپلز پارٹی کا روایتی حلقہ تصور کیا جاتا ہے۔

تاہم پارٹی قیادت شائد اپنے چیئرمین کے پہلے الیکشن کے حوالے سے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہے گی کیوں کہ وہ کراچی کی بدلتی اور سیاسی صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کو ضمنی یا عام انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے زرداری ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔

تاہم اس حوالے سے پارٹی قیادت نے اب تک کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے کیوں کہ بلاول بھٹو کو اس حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کو اس معاملے پر اپنے والد آصف زرداری سے طویل مشاورت کرنی ہے اور پیپلز پارٹی بلاول کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی باضابطہ اعلان کرے گی۔

ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو کے انتخابات میں حصہ لینے کا باضابطہ اعلان 30 نومبر کو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریبات کے دواران یا پھر 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو سیاست کے لیے کم عمر ہیں،عمران خان

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے حال ہی میں سکھر میں اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ چیئرمین بلاول کے لیے اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

اس حوالے سے جب پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی ارکان نے اصرار کیا تھا کہ بلاول بھٹو کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ خود بلاول بھٹو زرداری کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی 2017 کو انتخابات کا سال سمجھتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو بلاول بھٹو کو پارلیمنٹ لانے کے لیے کوئی نشست خالی کرانی کی ضرورت نہیں پڑے گی‘۔

ایک سوال کے جواب میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ باضابطہ اعلان کب کیا جائے گا تاہم انہوں نے 30 نومبر یا 27 دسمبر کے امکانات کو رد نہیں کیا۔

بلاول بھٹو زرداری 2013 کے عام انتخابات کے چار مہینے بعد ستمبر میں الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہوئے تھے۔

انہوں نے گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت بھی نہیں کی تھی حالانکہ پارٹی امیدواروں خاص طور پر پنجاب کے ارکان نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی ریلیوں سے خطاب کریں۔

انتخابی مہم سے دوری کی وجہ سے یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ بلاول بھٹو کے اپنے والد اور پھوپی سے پارٹی معاملات پر اختلافات ہوگئے ہیں تاہم پیپلز پارٹی نے اس کی تردید کی تھی۔

بلاول بھٹو نے نے ہم عصر تاریخ اور بین الاقوامی سیاست میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔

یہ خبر 28 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی