پی پی 78 انتخاب: مسرور جھنگوی کے حق میں مولانا لدھیانوی دستبردار
جھنگ: پی پی 78 کے ضمنی انتخاب سے مولانا محمد احمد لدھیانوی کی بروقت دستبرداری نے بظاہر آزاد امیدوار مسرور نواز جھنگوی کی کامیابی کی راہ ہموار کردی یہاں تک کہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کو بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سرفراز ربانی کے لیے مہم چلانے جھنگ آنا پڑا۔
سپاہ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) کے بانی حق نواز جھنگوی کے صاحبزادے مسرور جھنگوی اپنے والد کی وجہ سے اہل سنت و الجماعت میں بڑی تعداد میں ہمدرد اور ووٹرز رکھتے ہیں۔
پی پی 78 پر ضمنی انتخاب عدالت کی جانب سے مولانا لدھیانوی کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد منعقد کیا جارہا ہے تاہم ان کی جماعت نے اس ضمنی الیکشن میں مسرور جھنگوی کی حمایت میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
مولانا لدھیانوی نااہلی کے بعد 20 روز تک گھر گھر جاکر مسرور جھنگوی کے لیے رائے عامہ ہموار کرتے رہے تاہم بعد میں انہیں بھی عدالت نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا لدھیانوی کو جھنگ سے الیکشن لڑنے کی اجازت
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اگر وہ دونوں ضمنی انتخاب لڑے تو ووٹ بینک تقیسم ہوسکتا ہے، مولانا لدھیانوی نے گزشتہ روز مسرور جھنگوی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کردیا۔
دریں اثناء سندھ کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سرفراز ربانی کی مہم میں حصہ لینے کے لیے کراچی سے جھنگ پہنچیں جنہیں آخری لمحات میں ٹکٹ دیا گیا تھا۔
جھنگ میں تین روزہ قیام کے دوران شہلا رضا سرفراز ربانی کے حق میں بھرپور مہم چلائی اور اس حلقے کے شیعہ اکثریتی علاقے میں گھر گھر گئیں۔
ان کی اس مہم کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں شیعہ ووٹرز کو پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار ناصر انصاری کے بجائے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ن لیگ کے ناصر انصاری کو مسرور جھنگوی کی کامیابی کے خلاف سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے لیکن ممکن ہے کہ شیعہ برادری کے ووٹ بینک میں آنے والی تبدیلی ان دونوں جماعتوں کے حق میں فائدہ مند نہ ہو۔
مزید پڑھیں: جھنگ کے حلقہ این اے 89 سے احمد لدھیانوی کامیاب
پی پی 78 کا حقلہ جھنگ کے شہری علاقوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
فرقہ وارانہ جذبات اس حلقے میں ایس ایس پی اور مولانا جھنگوی کے منظر عام پر آنے سے قبل بھی یہاں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
1970 کے انتخابات بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑے گئے تھے اور ضلع جھنگ سے قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر سنی امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے شیعہ برادری کے ناقابل شکست تصور کیے جانے والے امیدواروں کو ہرایا تھا۔
اس وقت حقلے میں ایس ایس پی اور اینٹی ایس ایس پی ووٹ بینک موجود ہے اور دونوں ہی جذباتی اور نظریاتی طور پر اپنے متعلقہ مقاصد سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دفعہ 144 کے باوجود ’کالعدم‘ اہل سنت والجماعت کی ریلی
یہ فرقہ وارانہ اختلافات تقریباً تین دہائیوں میں نہایت گہرے ہوچکے ہیں اور ان کے متعلہ ووٹ بینک میں تفریق پیدا کرنا نہایت مشکل ہوچکا ہے۔
ایس ایس پی مخالف ووٹ بینک میں شیعہ برادری، بریلوی فرقے کی اکثریت، لبرلز، سیکولر عناصر اور دیگر سول سوسائٹی کے نمائندگان شامل ہیں۔
ایس ایس پی کے خلاف اس اتحاد میں سب سے زیادہ نمائندگی شیعہ برادری کی ہے جن کے ووٹوں کی تعداد 30 سے 40 ہزار کے درمیان ہے۔
یہ خبر یکم دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی