'بھارت پاک-افغان تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے'
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے الزام عائد کیا ہے کہ ہندوستان پاک-افغان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا 'افغانستان کے ساتھ پاکستان کے بہت ہی دیرینہ تعلقات ہیں اور بھارت چاہے کچھ بھی کر لے ہم اس کوشش کو کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے'۔
انھوں نے کہا کہ بھارت نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، جس سے دنیا میں ایک منفی تاثر گیا جسے کانفرنس کے اراکین نے بھی محسوس کیا۔
ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ایک طرف افغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور دوسری جانب ہمیں ان ہی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتا ہے، لہذا یہاں بیانات میں کافی تضاد پایا جاتا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے اس طرح کے بیانات کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ تو افغان حکومت کے اندرونی معاملات ہیں اور دوسرا داعش سمیت کئی دوسرے گروپس افغانستان میں منظم ہورہے ہیں، لہذا وہاں پر 9/11 کے بعد روایتی طور پر کچھ بھی ہوتا ہے تو نام پاکستان کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور وجہ امریکا کی مداخلت بھی ہے جو افغانستان میں اپنی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی پر) پر فائرنگ کے واقعات کے بعد جہاں بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے تو یہ بھی افغانستان کے رویے میں تبدیلی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
تاہم سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ان تمام وجوہات کے باوجود پاکستان چاہتا ہے کہ وہ ہر مسئلے میں افغانستان کی ہر ممکن مدد کرے جس سے اُسے خود ہی یہ احساس ہوگا کہ پاکستان خلوصِ نیت سے کام کرکے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔
اس سوال پر کہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں کیا آپ پاکستان کا پیغام دینے میں کامیاب ہوئے؟ مشیر خارجہ کا کہنا تھا اگرچہ اس کانفرنس میں پاکستان پر دہشت گردوں کی معاونت جیسے الزامات عائد کیے گئے، لیکن پاکستان نے پھر بھی ایک مثبت موقف کو اپنایا جس کی تمام ارکان نے تائید بھی کی۔
انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان اس کانفرنس میں شرکت نہ کرتا تو بھارت اپنی کوشش میں کامیاب ہوسکتا تھا جو کہ وہ چاہتا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کا چھٹا وزارتی اجلاس ہوا جس میں بھارت اور افغانستان نے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
مزید پڑھیں: ہارٹ آف ایشیا کانفرنس: بھارت اور افغانستان کی پاکستان پر تنقید
افغان صدر اشرف نے کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا ’میں الزام تراشیوں کا تبادلہ نہیں چاہتا، میں اس بات کی وضاحت چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے‘۔
ان کا کہنا تھا ’ہمیں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے، پاکستان نے افغانستان کی ترقی کے لیے 50 کروڑ ڈالر امداد کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ رقم دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے استعمال ہونی چاہیے‘۔
اسی دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا جس میں انھوں نے کہا کہ دہشت گردی افغانستان اور خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے، ہمیں دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں سے نمٹنا ہوگا۔
معاملہ صرف بیانات تک محدود نہ رہا اور بعدزاں بھارتی حکومت نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سرتاج عزیز کو سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر طے شدہ پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے سرتاج عزیز کو پریس کانفرنس سے روک دیا
واضح رہے کہ افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان معاشی اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے، دہشت گردی، انتہاپسندی اور غربت جیسے مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے 2011 میں شروع ہونے والے ہارٹ آف ایشیاء کے ارکان میں پاکستان، بھارت، افغانستان، آذربائیجان، چین، قازقستان، کرغزستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔