پائلٹ اور انجینئرزکا ناقص طیارے اڑانا 'ناقابل فہم' الزام: پی آئی اے
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے ان تمام میڈیا رپورٹس کو مسترد کردیا ہے، جن میں کہا جارہا تھا کہ قومی ایئرلائن کے طیارے ناقص ہیں اور ان میں سیفٹی معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
پی آئی اے کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا تھا کہ 'یہ بات ناقابل فہم ہے کہ پائلٹس اور انجینئرز ایک ایسا طیارہ اڑا کر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے، جس میں حفاظتی معیار کا خیال نہ رکھا گیا ہو'۔
پی آئی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'اے ٹی آر طیارے پرواز کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہیں، یہ طیارے ٹھنڈے اور گرم دونوں موسموں میں کم فاصلے کی پروازوں کے لیے کار آمد اور کم خرچ ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے بہت سارے طیارے ہندوستان اور یورپی ممالک کی مختلف ایئر لائنز چلا رہی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ حادثے کے شکار طیارے میں پہلے سے کسی تکنیکی خرابی ہونے کی خبریں بھی قطعی بے بنیاد ہیں۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ، 48 افراد جاں بحق
خیال رہے کہ بدھ 7 دسمبر کو پی آئی اے کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے سے جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس بدقسمت مسافر طیارے میں معروف شخصیت جنید جمشید بھی سوار تھے۔
حکومت ایوی ایشن کے شعبے کو بہتر بنائے، صدر پالپا
پاکستان ایئر لائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کے صدر کیپٹن خالد ہمزہ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایوی ایشن کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن خالد ہمزہ کا کہنا تھا کہ جہازوں کی ناقص حالت اور ناکافی انتظامات میں کام کرنا پائلٹس کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے، لہذا اس طرح کے فضائی حادثات کی ذمہ داری پائلٹس پر ڈالنا غیر مناسب ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) میں جہازوں کے اسپئر پارٹس ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی نشاندہی کئی مرتبہ کروائی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال صرف پی آئی اے تک محدود نہیں، بلکہ کچھ نجی کمپنیوں کو بھی اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے اور حکومت کو تمام ایویشن کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حادثہ جہاز، ٹرین یا گاڑی کا ہو اس کے پیچھے ایک وجہ ہوتی ہے، کیونکہ کوئی بھی حادثہ اچانک سے پیش نہیں آتا'۔
انھوں نے کہا کہ پائلٹ 'مے ڈے' کی کال صرف اُس صورت میں دیتا ہے جب صورتحال آخری حد تک اس کے کنٹرول سے باہر ہو اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی پائلٹ انجن فیل ہونے کی صورت میں بھی یہ کال نہیں دیتا، کیونکہ جہاز ایک انجن پر بھی آسانی سے رن وے تک پہنچ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:طیارہ حادثہ: میتوں کی شناخت میں کچھ دن لگ سکتے ہیں
سانحہ حویلیاں کی تحقیقات پر بات کرتے ہوئے کیپٹن خالد ہمزہ کا کہنا تھا کہ حادثے کی انکوائری آزادانہ ہونی چاہیے کیونکہ حادثہ چند منٹ کی خرابی سے نہیں پیش آیا، لہذا اس میں اور بھی بہت سے پہلو ہوسکتے ہیں جن پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہوگی۔
پالپا کے صدر نے کہا کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ ذمہ داری پائلٹ پر ڈال کر کتاب بند کردی جاتی ہے تاکہ تحقیقات کا عمل آگے نہ جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ انٹرنیشنل ایوی ایشن کے قانون میں یہ بات واضح ہے کہ اگر لواحقین بھی چاہیں تو تحقیقات میں شامل ہوسکتے ہیں تاکہ تمام حقائق ان کے سامنے آئیں لیکن پالپا کے صدر کی حیثیت سے خود مجھے تحقیقات کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سانحہ حویلیاں ایک بڑا حادثہ تھا، لہذا وہ اس مرتبہ پوری کوشش کریں گے کہ تحقیقات میں شامل ہوں اور تمام رپورٹ آزادانہ طور پر عام لوگوں کے سامنے آسکے۔