پاکستان

سندھ میں گیس کی تقسیم: نجی کمپنی کو ایک روز میں لائسنس جاری

گیسیئس ڈسٹری بیوشن کمپنی کئی دہائیوں پرانے پائپ لائن نیٹ ورک کواستعمال کرکے اجارہ داری ختم کرنے والی پہلی کمپنی ہوگی۔

اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے سندھ میں قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے پہلی مرتبہ نجی شعبے کی ایک ایسی کمپنی کو لائسنس جاری کیا ہے، جس کی تشکیل لائسنس کے اجراء سے محض ایک روز قبل ہوئی تھی۔

کراچی میں قائم یہ کمپنی گیسیئس ڈسٹری بیوشن کمپنی (جی ڈی سی) سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے کئی دہائیوں پرانے پائپ لائن نیٹ ورک کو استعمال کرکے ایس ایس جی سی ایل کی تقسیم اور فروخت پر اجارہ داری ختم کرنے والی پہلی کمپنی ہوگی۔

نئی کمپنی جی ڈی سی پاکستان کے سیکیورٹیز اور ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کے ساتھ 21 دسمبر سے رجسٹرڈ ہوئی جبکہ 22 دسمبر کو اس کمپنی کو آئندہ 10 سال کے لیے تقسیم کا لائسنس جاری کیا گیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کو نہ ہی ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے نیٹ ورک استعمال کرنے پر اعتراض نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ (این او سی) سائن کیا گیا اور نہ ہی اوگرا کی جانب سے پائپ لائن نیٹ ورک کی گنجائش استعمال کرنے کی اجازت کے بعد نئی کمپنی اور سوئی سدرن میں کوئی معاہدہ طے پایا۔

نئی کمپنی کو جاری ہونے والے لائسنس کے مطابق جی ڈی سی، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) یا مستقبل میں کسی ٹرمینل آپریٹر سے ایل این جی خرید سکے گی اور منتخب شدہ صارفین (جن میں سی این جی اسٹیشن بھی شامل ہیں) فروخت کرسکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سی این جی قیمت مقرر کرنے کا اختیار مالکان کو دے دیا گیا

اوگرا کی جانب سے 14 دسمبر کو پاک گیس ڈسٹری بیوشن کمپنی کو تقسیم کار لائسنس جاری کرنے کے لیے عوامی سماعت کی گئی جس پر پی ایس او کی جانب سے اعتراض سامنے آیا۔

پی ایس او کا مؤقف تھا کہ کمپنی کا نام صارفین کو بہکانے کی واضح کوشش ہے کیونکہ 'پاک گیس' پی ایس او کا ایک مشہور برانڈ ہے۔

اوگرا کی تجویز پر پاک گیس ڈسٹری بیوشن کمپنی نے اپنا نام تبدیل کرکے رجسٹریشن کے لیے گیسیئس ڈسٹری بیوشن کمپنی کے نام سے دوبارہ رجسٹریشن کی درخواست دی جس کے بعد پاکستان سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے 21 دسمبر کو اسے رجسٹر کیا اور لائسنس کے اجراء کا عمل شروع کیا گیا اور یہ کام بھی 22 دسمبر کو مکمل ہوگیا۔

رجسٹریشن کے عمل سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کمپنی کے نئے نام پر از سر نو سماعت کا آغاز ہونا چاہیئے تھا اور لائسنس سے قبل سوئی سدرن کی جانب سے این او سی کا اجراء ہونا چاہیئے۔

سوئی سدرن اور سندھ حکومت کو ایل این جی کے استعمال پر مخالفت کا سامنا ہے اور جواز پیش کیا جاتا ہے کہ صوبے کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بڑی مقدار میں گیس موجود ہے۔

اوگرا کے مطابق پٹیشنر جی ڈی سی نے پاک گیس ڈسٹری بیوشن کمپنی کا نام گیسیئس ڈسٹری بیوشن کمپنی سے تبدیل کرنے کی درخواست 22 دسمبر 2016 کو جمع کرائی تھی جس کے ساتھ کمپنی کو بحیثیت ادارہ تشکیل کرنے کی درخواست بتاریخ 21 دسمبر 2016 بھی جمع کرائی گئی تھی اور اس پر جوائنٹ رجسٹرار اور انچارج سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے دستخط موجود تھے۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ کمپنی کے درخواست دائر کرنے سے ایک روز قبل ہی اس کی تشکیل مکمل ہوچکی تھی۔

فیصلے کا دفاع

چیئرمین اوگرا عظمیٰ عادل خان نے نئی گیس تقسیم کار کمپنی کو سندھ میں لائسنس جاری کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ پی ایس او کی جانب سے پاک گیس کے نام پر اعتراض کیا گیا تھا اور اوگرا نے اس اعتراض کو برداشت کیا، باوجود اس کے کہ پاک گیس پی ایس او کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔

اس سوال پر کہ نئے نام پر نئی سماعت کیوں نہیں کرائی گئی، اوگرا چیف کا کہنا تھا کہ لائسنس 22 دسمبر کو جاری ہوا کیونکہ اوگرا کے رکن عامر نسیم اسی روز ریٹائر ہونے والے تھے۔

مزید پڑھیں: اوگرا کا گیس کی قیمت میں 36 فیصد اضافے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی مختلف معاملات پر عوامی سماعتیں ہوئیں تاہم کورم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اہم معاملات پر فیصلے نہیں لیے جاسکے۔

عظمیٰ عادل کا کہنا تھا کہ اسی لیے عوامی سماعت مکمل ہونے پر تینوں اوگرا ارکان نے تمام فیصلوں پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ سارا عمل ضائع ہونے سے بچ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے نام کے لیے نئی سماعت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کمپنی کی باقی تمام تفصیل مثلاً شیئر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز وغیرہ کی معلومات بالکل وہی تھیں۔

اوگرا چیف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نئی کمپنی جی ڈی سی کو جاری ہونے والا تقسیم کا لائسنس چند سال قبل یونیورسل گیس ڈسٹری بیوشن کمپنی کو ایس این جی پی ایل نیٹ ورک کے لیے جاری ہونے والے لائسنس سے بالکل مختلف نہیں۔


یہ خبر 9 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔