پاکستان

'ملک میں دہشت گردی کیلئے غیرملکی ایجنسیوں نے فنڈز فراہم کیے'

پاکستان کو عدم استحکام کاشکار کرنے کیلئے غیر ملکی ایجنسیز نے متعدد گروپوں کو فنڈ فراہم کیے، حکومت کی سینیٹ میں بریفنگ

اسلام آباد: سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے خاص غیر ملکی ایجنسیز نے ملک میں موجود گروپوں (عسکریت پسند تنظیموں) کو فنڈز فراہم کیے ہیں۔

ملک میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والے فنڈز کے اہم ذرائع کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والے ذرائع کی 100 فیصد نشاندہی کرنا مشکل ہے، لیکن کچھ معلوم ذرائع کے مطابق دہشت گردی کی سرگرمیوں کیلئے رقم بھتہ اور غیر ملکی ایجنسیز کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد مذکورہ رقم پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں پر موجود منشیات کے اسمگلرز اور ان کو تیار کرنے والوں کے ذریعے منتقل کرتے ہیں۔

دہشت گردی کیلئے فنڈنگ کی معلومات کے حصول کیلئے تفتیش کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے 844 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں، جن میں 498 مقدمات فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ، 232 مقدمات انسداد منی لانڈرنگ اور 116 مقدمات اسٹیٹ بینک کے فنانس مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے پُر اسرار قرار دی جانے ولی رقم کی منتقلی کے حوالے ہیں۔

دہشت گردی کے لیے فنڈز کی منتقلی کو روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی اقدامات کو مضبوط کرنے کیلئے مارچ 2013 اور جون 2014 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترامیم کی گئیں تھی تاکہ قانون کو مزید مؤثر اور بین الاقوامی معاملات سے ہم آہنگ بنایا جاسکے، جس کا مقصد دہشت گردوں کی فنڈنگ کو روکنا تھا۔

اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا قانون متعارف کرایا گیا ہے، جسے حتمی نظر ثانی کیلئے قانون اور انصاف کے ڈویژن کو بھیج دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر کے مطابق اسٹیٹ بینک نے تمام بینکس کیلئے قواعد و ضوابط جاری کردیے ہیں، جس پر سختی سے عمل درآمد کی تاکید کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی روک تھام کے ایکٹ (پی ای سی اے) 2016 کو نافذ کیا جارہا ہے جس کے ذریعے دہشت گروں کیلئے کسی بھی مواصلاتی نظام کے ذریعے رقم کی منتقلی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 پہلے سے نافذ ہے۔

حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کی شق نمبر 6 پر عمل درآمد کرایا ہے، جس کے مطابق 'دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے کی جانے والی مالی معاونت کو روکا جائے گا'۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عطیات کے ڈبوں کے ذریعے تنظیموں کی جانب سے فنڈز جمع کرنے کے عمل پر پابندی لگادی گئی ہے، جس کی خلاف ورزی کی صورت میں پولیس کی جانب سے کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور عطیات کا ڈبہ ضبط کرلیا جائے گا۔

حال ہی میں حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے افراد کی فہرست اور ان کے قومی شناختی کارڈ نمبر مرکزی بینک سے شیئر کیے ہیں تاکہ ان کے اکاؤنٹ مجمند کیے جاسکیں، اسٹیٹ بینک کے مطابق ملک بھر میں 4461 بینک اکاؤنٹس مجمند کیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کی جانب سے تمام بینکس کے حکام کے لیے قواعد و ضوابط جاری کیے گئے ہیں تاکہ وہ صارف کی سرگرمیوں کو جاننے کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے رقم کی پُر اسرار منتقلیوں کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کے فنانس مانیٹرنگ یونٹ کو رپورٹ کریں۔

اس کے علاوہ کالعدم قرار دیے جانے والے ادارے یا افراد کو بینک اکاؤنٹس کھلوانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ مالی ادارے کی کسی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

چار سال میں دہشت گردی کے 5321 واقعات

ایوان بالا کو بتایا گیا کہ 2013 سے اب تک ملک بھر میں دہشت گردی کے 5321 واقعات میں 4613 افراد ہلاک اور 12188 زخمی ہوئے۔

سینیٹ کو فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق 2013 میں دہشت گردی کے 1571 واقعات میں 1794 افراد ہلاک اور 5352 زخمی ہوئے تھے، 2014 میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بڑھ کر 1816 ہوگئی جس میں 1172 افراد ہلاک ہوئے اور 3185 افراد زخمی ہوئے۔

تاہم 2015 میں دہشت گردی کے 1139 واقعات میں 838 افراد ہلاک ہوئے، دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پہلی مرتبہ 2015 میں اپنی کم ترین سطح پر آئی، جبکہ اس سال ان واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 1706 تھی۔

اس کے علاوہ 2016 میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی اور ان کی تعداد کم ہو کر 785 ہوگئی، ان واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 804 اور زخمیوں کی تعداد 1914 تھی۔

ایوان بالا کو فراہم کی گئیں تفصیلات کے مطابق رواں سال کے پہلے مہینے میں اب تک دہشت گردی کے 10 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 5 افراد ہلاک اور 31 زخمی ہوئے ہیں۔

سرکاری اشتہاروں کے اخراجات

سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ حکومت نے 2013 سے دسمبر 2016 کے دوران سرکاری اشتہارات کی مد میں 11 ارب 78 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں، جس میں الیکٹرونک میڈیا کو 8 ارب 13 کروڑ اور اخبارات کو 3 ارب 62 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

2015-16 میں حکومت نے اشتہارات کی مد سب سے زیادہ 5 ارب روپے خرچ کیے جن میں 2 ارب 85 کروڑ روپے اشتہارات کی مد میں اخبارات جبکہ اس حوالے سے 2 ارب 29 کروڑ روپے الیکٹرونک میڈیا کو ادا کیے گئے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تجویز پیش کی خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) کی دیت اور قصاص کے حوالے سے رپورٹ کو سینیٹ میں پیش کیا جائے تاکہ اس قانون میں مزید بہتری کیلئے سفارشات مرتب کی جاسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ، ان کو بااختیار بنانے اور ان کے استحصال کے خاتمے کیلئے ایک بڑے ایجنڈے کی ضرورت ہے، 'جو مستقل جدوجہد سے حاصل ہوسکتا ہے'۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'ہم جس قدر خواتین کے حقوق کیلئے کوششیں کریں گئے اس قدر ہمیں بہتر نتائج حاصل ہوں گے'۔

یہ رپورٹ 20 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی