آبی تنازع کے حل میں تاخیر کی وجہ پاکستانی غفلت
اسلام آباد: اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری آبی تنازع کے حل میں مسلسل تاخیر کی وجہ پاکستان کی غفلت کو قرار دے دیا۔
یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کی جانب سے تنازع کا تفصیلی تجزیہ کرنے میں برتی جانے والی غفلت اور سندہ طاس کمیشن اور عالمی بینک کو سندھ طاس تنازعات کی تفصیل سے آگاہ کرنے میں پاکستان کی جانب سے کی جانے والی تاخیر ہی معاملے کا حل تلاش کرنے میں التواء کی وجہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کے تحفظ کی صورتحال پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے مذکورہ ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بین السرحدی آبی تنازعات سے آگاہی ایک حالیہ معاملہ ہے اور اس سے متعلق منظم تحقیق کی ضرورت ہے۔
بدھ (یکم فروری) کو جاری کی گئی 'ڈیولپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان' نامی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 90 کی دہائی کے آغاز سے دونوں ریاستوں میں بڑھتے ہوئے پانی کے دباؤ سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ معاہدے پر بھی دباؤ آیا، سندھ طاس معاہدے کے تحت ان 2 معاملات کی وضاحت نہیں ہوسکتی کہ خشک موسم کے دوران پانی کی تقسیم کا کیا اصول ہوگا؟ اور دوسرا یہ کہ دریائے چناب کے پاکستان میں بہنے سے پانی اکھٹا کرنے پر مجموعی اثرات کیا مرتب ہوں گے؟
رپورٹ کے مطابق دریائے جہلم اور دریائے نیلم پر وولر بیراج اور کشن گنگا منصوبہ اسی باعث تنازع کا سبب ہیں جبکہ ربیع کے موسم میں پانی کی قلت کی وجہ بھی خریف کے مقابلے میں پانی کے بہاؤ میں ہونے والی کمی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان معاہدے کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے تنازع کو مذاکرات کا حصہ بنانا چاہتا ہے جبکہ بھارت اس معاملے کو جامع مذاکرات میں شامل نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ معاہدے کو ختم کرنے کے لیے راضی نہیں۔
یہ معاہدہ بھارت کو 1.25، 1.60 اور 0.75 ملین ایکڑ فٹ کے مغربی دریاؤں پر توانائی اور سیلابی اسٹوریج کی اجازت دیتا ہے۔
یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں واضح ابہام اُس وقت سامنے آتا ہے جب دونوں ممالک اس میں دی گئی اجازت کو الگ الگ انداز سے دیکھتے ہیں اور یوں پاکستان اور بھارت میں تنازع جنم لیتا ہے۔
یو این ڈی پی کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں، سکڑتے گلیشیئرز اور بارش کے سلسلوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث پانی اور وسائل میں ہونے والی کمی کے مسائل کو اجاگر کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ سیلابی صورتحال میں پاکستان اور ہندوستان کے دریاؤں میں جانے والا پانی سندھ میں سیلاب کی وجہ بنتا ہے اور معیشت پر اس طرح مسلسل ہونے والا نقصان مستقبل میں دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چناب میں پانی کا سالانہ بہاؤ 59-1958 سے کمی کا شکار ہے اور دریائے جہلم میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، جبکہ اگر ہندوستان بیراجوں سے پانی روک دیتا ہے تو پاکستان کی زراعت اور ہائیڈرو پاور منصوبے شدید متاثر ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب معاہدے کے تحت پاکستان، بھارت کو ہائیڈرو پاور ڈیمز کی تعمیر سے بھی نہیں روک سکتا، وہ صرف پانی کی کمی پر آواز بلند کرسکتا ہے۔
صوبوں میں اعتماد کی کمی
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کا مسئلہ سیاست کا شکار ہے اور اس حوالے سے تمام صوبوں میں بھی اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔
عدم اعتماد کی وجہ بہت سی اہم معلومات اور مواد تک رسائی حاصل نہ ہونا ہے اور اس حوالے سے معروف اخبارات کو چاہیئے کہ وہ عوام میں آگاہی پھیلائیں۔
پانی کے استعمال اور مانگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے معیار کو برقرار رکھنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے لہذا پانی کے معیار کا پیمانہ مقرر کیا جانا ضروری ہے۔