پاکستان

ڈاکٹرعاصم کی درخواست ضمانت پر 2 رکنی بینچ میں اختلاف

سندھ ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ نےڈاکٹر عاصم کی درخواست ضمانت کو خارج کرنے کیلئے ریفری جج کے پاس بھیج دیا۔

کراچی: سندھ ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت کے حوالے سے حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا جس کے بعد کیس کو ریفری جج کے پاس بھیج دیا گیا، لہذا سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کراچی کے صدر ڈاکٹر عاصم حسین کو ضمانت پر رہائی کیلئے مزید انتظار کرنا پڑے گا۔

جسٹس محمد فاروق شاہ اور محمد کریم خان آغا پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ڈاکٹر عاصم حسین پر قائم دو مقدمات کیلئے دائر کی گئی ضمانت کی درخواست پر پہلے سے محفوظ فیصلہ سنایا۔

ان مقدمات میں اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے غیر قانونی زمین کی الاٹمنٹ سے قومی خزانے کو 46 کروڑ 20 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے، ڈاکٹر ضیاء الدین ہسپتال کیلئے سرکاری زمینی پر قبضہ کرنے، منی لانڈرننگ اور رشوت لینا شامل ہے۔

سابق وفاقی وزیر، جو 8 اگست 2015 سے زیر حراست ہیں، نے اپنے وکیل کے ذریعے مذکورہ مقدمات میں ضمانت کی درخواست دائر کررکھی ہے۔

ڈویژنل بینچ میں شامل ججز، جنھوں نے اس سے قبل ضمانت کی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا، کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور دونوں کا فیصلہ مختلف تھا۔

جسٹس فاروق شاہ نے ہر کیس میں ڈاکٹر عاصم حسین کو 25 لاکھ روپے اور عدالت کے ناظر کے اطمینان کیلئے اُسی مالیت کے پی آر بانڈز کے عوض ضمانت منظور کی۔

انھوں نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ اپنا پاسپورٹ ناظر کو جمع کرادیں اور وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کے آئندہ کے حکم تک درخواست گزار کو نیا پاسپورٹ جاری نہ کریں اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں بھی شامل کردیا جائے۔

جسٹس فاروق شاہ نے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار جس بیماری میں مبتلا ہیں اس کا علاج جیل کی حدود میں کیا جانا ممکن نہیں اور اس کیلئے کچھ خصوصی سہولیات کی ضرورت ہے، انھوں نے مشاہدہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کا مستقل جیل میں رہنا ان کی جان کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف قائم کیسز، جن میں ابھی تک چارج شیٹ بھی پیش نہیں کی گئی، کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نیب کے وہ مقدمات جن میں متعدد ملزمان نامزد ہوتے ہیں ان کے فیصلوں کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔

جسٹس فاروق شاہ کا کہنا تھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیل میں مناسب علاج کی سہولت میسر نہیں کسی شخص کو لمبے عرصے کیلئے حراست میں رکھنا اس کی مکمل طور پر جسمانی اور ذہنی معذوری کا باعث بن سکتا ہے۔

دوسری جانب، جسٹس محمد آغا نے ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ یقینا قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی متعلقہ شق اور کرمنل پروسیڈنگ کوڈ کی دفعہ 497 آئی کے تحت درخواست ضمانت کی برخاستگی کا مقدمہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میڈیکل بورڈ کی تجاویز پر درخواست گزار، جو ایک سینئر ڈاکٹر بھی ہیں، کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں'۔

جج نے فیصلے میں کہا کہ 'فراہم کردہ ریکارڈ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزم معاشرے کے خلاف جرم میں شریک ہے اور وہ کوئی عام مجرم نہیں ہے جبکہ ان کے کیس میں ٹھوس ریکارڈ موجود ہے جو ان کے جرائم کے حوالے سے ہیں'۔

جسٹس آغا نے کہا کہ استغاثہ نے نشاندہی کی ہے کہ ڈاکٹرعاصم حسین کو شہر کے ایک معروف ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر کی جانب سے علاج کی مکمل سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے پاس درخواست گزار کو ضمانت دینے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ایسے موقع پر جب ان پر انتہائی سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہوں'۔

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس کرمنل پروسیڈنگ کوڈ کی دفعہ 497 کے زمرے میں نہیں آتا، 'ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے'۔

اس سے قبل ڈاکٹر عاصم کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے موکل کو اس سے قبل طبی بنیادوں پر ایک کیس میں ضمانت دی جاچکی ہے، وہ تقریبا ڈیڑھ سال سے جیل میں ہیں اور سخت بیمار ہیں، انھیں عارضہ قلب کے باعث امراض قلب کے قومی ادارے کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں بھی شفٹ کیا گیا تھا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کی صحت کی جانچ کیلئے بنائے جانے والے میڈیکل بورڈ کے مطابق پی پی پی رہنما کو کمر کے درد کا مسئلہ درپیش ہے اور انھیں فوری طور پر ڈسک سرجری کی ضرورت ہے۔

انھوں نے عدالت سے اپنے موکل کیلئے ضمانت کی درخواست منظور کرنے کا کہا تاکہ انھیں مناسب علاج فراہم کیا جاسکے۔

تاہم قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل نے ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو مطلوبہ علاج کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

انھوں نے زور دیا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر انتہائی سنگین الزامات ہیں اور انھیں اس قسم کی سہولت نہیں دی جاسکتی۔

ان مقدمات میں ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ دیگر شریک ملزمان میں سابق سیکریٹری پیٹرولیم محمد اعجاز چوہدری، ضیاء الدین میڈیکل سینٹر دبئی کے ایڈمنسٹریٹر عبدالحمید، کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر سید اطہر حسین اور مسعود حیدر اور کراچی ڈوک لیبر بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر صفدر حسین شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر عاصم حسین پر جامشورو جوائنٹ وینچر لمیٹڈ (جے جے وی ایل) سے مختلف گیس فلیڈز پر گیس کو پروسس کرنے کیلئے اربوں روپے کے غیر قانونی معاہدے کرنے اور اس حوالے سے 17.4 ارب روپے کے غبن کا الزام بھی ہے۔

ان پرایک ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملزم نے جے جے وی ایل کو مختلف گیس فیلڈز پر گیس کی پروسس کا ٹھیکہ بغیر کسی نیلامی کے دیا تھا جس سے انھوں نے قومی خزانے کو 17.4 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔

مذکورہ کیس میں ان کے شریک ملزمان میں سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے مینجنگ ڈائریکٹر خالد رحمٰن اور سابق افسران زبیر صدیقی، عظیم اقبال، شعیب وارثی، یوسف جمیل انصاری اور ملک عثمان، اوجی ڈی سی ایل کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر بشارت مرزا اور ایک افسر زاہد بختیار اور جے جے وی ایل کے چیف ایگزیکٹو افسر اقبال احمد شامل ہیں۔

یہ رپورٹ 4 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی