رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کیلئے پہلی پیش رفت
اسلام آباد: پارلیمنٹ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کی منظوری دے دی۔
رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کی منظوری سینیٹ کے چیئرمین کی جانب سے تشکیل دی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے دی، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان شامل تھے۔
کمیٹی کے چیئرمین حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر ہیں، جبکہ اس کمیٹی میں شامل دیگر پارلیمنٹرینز میں مسلم لیگ (ن) کی رکن پارلیمنٹ اور وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب،سابق وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید، متحدہ قومی موومنٹ کی رکن پارلیمان خوش بخت شجاعت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شبلی فراز اور دیگر شامل ہیں۔
خصوصی کمیٹی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل کا جائزہ لے کر کمیشن بنانے سے متعلق لائحہ عمل تیار کرے۔
کمیٹی کے اجلاس میں رائٹ ٹوانفارمیشن بل کے مسودے کی تمام شقوں پرترتیب وار بحث کے بعد اس کی متفقہ منظوری دی گئی۔
رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا بل حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا، اب اس بل کو منظوری کے لیے پہلے سینیٹ اور بعد میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: رائٹ ٹو انفارمیشن کا صحیح استعمال
مجوزہ مسودے کے تحت ’رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن‘ بنایا جائے گا، جو مکمل خود مختار بھی ہوگا، اس کمیشن کو ملک کے تمام آئینی، قانونی، سیکیورٹی اور انتظامی اداروں تک رسائی حاصل ہوگی۔
تمام ادارے اس کمیشن کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، جو کمیشن کو درکار ہوگی، جب کہ کمیشن ہر اس پاکستانی فرد کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوگا جس کی اس فرد ضرورت ہوگی۔
مجوزہ مسودے کے تحت رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن 3 ارکان پر مشتمل ہوگا، جن کی تقرری وزیر اعظم کریں گے، جب کہ اس کا سربراہ چیف انفارمیشن افسر ہوگا۔
کمیشن کا ایک رکن عدلیہ، ایک بیوروکریسی اور ایک رکن سول سوسائٹی سے لیا جائے گا، جب کہ کمیشن کے تمام ارکان 65 سال سے کم عمر کے ہوں گے۔
کمیشن ارکان کو ہٹانے کا اختیار قومی اسمبلی و سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے پاس ہوگا.
مجوزہ مسودے کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا ریکارڈ جان بوجھ کر ضائع کرنے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاوروائی کی جاسکے گی، جب کہ وہ تمام ریکارڈ جو 20 سال سے زیادہ پرانا ہوگا، اس پر کمیشن کے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، مگر یہ ریکارڈ بہر صورت منظر عام پر آئے گا۔
مسودے میں کہا گیا کہ کمیشن کسی بھی لاپتہ شخص سے متعلق معلومات کی درخواست پر 3 دن میں تحریری طور پر معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔
اجلاس کے بعد رائٹ ٹو انفارمیشن بل کی منظوری کو انسانی حقوق سے متعلق بڑی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اس بل سے عام آدمی کو معلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہوگی، بل کے تحت اس معلومات تک بھی رسائی کے لیے اپیل کی جاسکے گی، جس کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔
مزید پڑھیں: معلومات تک رسائی
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے نام پر بہت ساری معلومات شہریوں کو مہیا نہیں کی جارہی تھی، جب کہ کسی دستاویز پر حساس اور خفیہ لکھ کر اسے پبلک نہیں کیا جا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی سینیٹر نے مزید کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل کے تحت کسی معلومات کو استثنی دینے کے لیے افسران اور عہدیداروں کو تین کام کرنا ہوں گے۔
ان کے مطابق بل کے تحت اب’ مجاز افسر تحریری طور پر بتائے گا کہ اس معلومات کو کیوں استثنی دیا گیا، مجاز افسر قومی سلامتی اور قومی مفاد کے جواز اور وجوہات بتانے کا پابند ہوگا، اگر کسی سیکیورٹی کے ادارے میں بھی کرپشن ہوئی تو اس طرح کی معلومات کو روکا نہیں جا سکے گا‘۔
ان کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن بل لاپتہ افراد سے متعلق معاملات میں مدد گار ثابت ہوگا۔
فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ اب بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کسی معلومات کو روکا نہیں جاسکے گا، کسی بھی شخص کو عام معلومات حاصل کرنے میں ایک ماہ جبکہ بنیادی انسانی حقوق کی معلومات حاصل کرنے میں صرف 3 دن لگیں گے۔