توانائی کےشعبے میں بہتری،حکومتی دعوے پرجرمن بینک کو اعتراض
اسلام آباد: جرمنی کے سرکاری ترقیاتی بینک (کے ایف ڈبلیو) نے پاکستانی وزارت توانائی کی جانب سے توانائی کے شعبے میں مؤثر پیداوار اور کنٹرول کے دعوے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے 'سیاسی' دعویٰ قرار دے دیا۔
اس حوالے سے جاری کردہ پالیسی پیپر میں جرمن بینک کے ایف ڈبلیو نے تسلیم کیا کہ حالیہ چند سالوں کے دوران پاکستان کی توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہوا تاہم یہ اضافہ ان 3 نئے پاور پلانٹس کی بدولت ہوا جن کا آغاز موجود حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل ہوا تھا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن بینک کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری شعبے میں کام کرنے والے تینوں اہم ترین پاور پلانٹس مظفرگڑھ، جامشورو اور گڈو نے گذشتہ تین سالوں کے دوران اپنی صلاحیت سے کم کام کیا اور 2010، 2013 کے مقابلے میں کم الیکٹرک یونٹس پیدا کیے۔
بینک کے مطابق وزارت توانائی کی جانب سے 2013 کے بعد سے بجلی کی پیداوار میں 25 فیصد اضافے کے دعوے اور مؤثر ایندھن کے استعمال و کنٹرول کے باعث 2016 میں بجلی کی سالانہ پیداوار 16 ارب یونٹس تک پہنچنے کے اعلان نے کے ایف ڈبلیو کی توجہ حاصل کی۔
بینک کے مطابق مؤثر سسٹم سے متاثر ہوتے ہوئے قلیل مدت میں اس کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے لیے بینک نے پاور سسٹم شماریات 16-2015 اور 41 ویں پلاننگ پاور کے اعدادوشمار کی مدد لی۔
بینک کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیدارواری صلاحیت میں 25 فیصد اضافہ قابل تحسین بات ہے جس کے نتیجے میں 2016 میں عوامی شعبے کی پیداوار 3.243 گیگاواٹ سے بڑھ کر 16.103 گیگاواٹ ہوگئی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا اضافہ صرف ایندھن کے مؤثر استعمال کے باعث ممکن ہوا؟
کے ایف ڈبلیو کے مطابق 2013 میں حکومتی کی ملکیت میں شامل تھرمل پاور اسٹیشنز کی تعداد 10 تھی، 2014 میں گڈو اور ٹی پی ایس نندی پور میں 3 نئے یونٹس شامل کیے گئے اور یہ اضافہ مؤثر ایندھن کے استعمال کے زمرے میں نہیں آتا۔
بینک کا مزید کہنا تھا 2013 اور 2016 میں یہ تمام اسٹیشنز قدرتی گیس کو بنیادی فیول کے طور پر استعمال کررہے تھے، یہ تمام اسٹیشنز گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکی ایڈ پروگرام کے تحت بحال کیے گئے تھے اور انہوں نے 2016 کے دوران 2010 کے مقابلے میں کم یونٹس پیدا کیے۔
ریسرچ پیپر کے مطابق ٹی پی ایس گڈو (پاکستان کا سب سے بڑا تھرمل پاور اسٹیشن) 2010 کے مقابلے میں حالیہ سالوں میں کم یونٹس بجلی پیدا کررہا ہے اور اس اسٹیشن کو بہترین پرفارمنس کی مثال پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح ٹی پی ایس مظفر گڑھ نے 2014 میں 5 ہزار گیگاواٹ توانائی پیدا کی مگر 2015 میں پیداوار اس سے کافی کم ہوگئی۔
جرمن بینک کے مطابق یہ اعداد و شمار وزارت توانائی کے اس دعوے پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کی نسبت اب حکومتی توانائی کا شعبہ بہترین پرفارمنس اور پیداواری صلاحیت کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔
کے ایف ڈبلیو کا کہنا ہے کہ پیداوار میں اضافہ نندی پور پاور پراجیکٹ میں 2 ایڈیشنز کے بعد سامنے آیا، جبکہ یہ تمام منصوبے 2013 سے قبل کے تھے جو حال ہی میں فعال ہوئے لہذا ان پلانٹس کی پرفارمنس کو حکومت اپنے اقتدار میں ایندھن کے مؤثر استعمال کی مثال بنا کر پیش نہیں کرسکتی۔
ان کے مطابق وزارت کا یہ اعلان 'سیاسی' دعویٰ ہوسکتا ہے تاہم پیداواری کمپنیوں کی کارکردگی میں ہونے والی بہتری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔