میاں میر: شہنشاہوں کے روحانی استاد
میاں میر: شہنشاہوں کے روحانی استاد
کچھ عرصہ قبل میں جب امرتسر گولڈن ٹیمپل گیا تو وہاں ہری مندر صاحب کی انتظامی کمیٹی نے ہمیں گولڈن ٹیمپل کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سکھوں کی اس مقدس عبادتگاہ کا سنگِ بنیاد سندھ کے ایک صوفی بزرگ میاں میر محمد سندھی القادری نے رکھا تھا۔
میاں میر سیہون میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام میر محمد تھا۔ وہ آگے چل کر اسلام اور سکھ مت کی ہم آہنگی کی علامت بن گئے۔ آج بھی سکھ مت کے پیروکار قلندر کی نگری کے اس بزرگ سے اپنے گروؤں جتنی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔
آپ لاہور کی مشہور انفینٹری سڑک سے گذریں گے تو آپ کو یہ سڑک ایک چھوٹے راستے تک لے جاتی جو میاں میر روڈ کے نام سے مقبول عام ہے۔ میاں میر روڈ، میاں میر ہسپتال، میاں میر اسکول، میاں میر بلڈنگ، میان میر گلی، یہاں تک کہ انگریز دور میں یہ علاقہ میاں میر چھاؤنی کے نام سے مشپور تھا۔
میاں میر 25 برس کی عمر میں سیہون سے نکلے اور لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ ان کی پرہیزگاری اور تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے دور کے مغل بادشاہ بھی ان کی سلامی بھرنے پر مجبور تھے۔ اکبر بادشاہ کے دور میں میاں میر نے سیہون کو خیر آباد کہا تھا، پھر جہانگیر کی ان سے عقیدتمندی رہی، شاہ جہاں تو اکثر ان کی سلامی پر آیا کرتے تھے۔ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ تو میاں میر کے روحانی اثر سے بھی فیض یاب ہوئے۔ دارا شکوہ کے لبرل خیالات کے پیچھے دراصل میاں میر کی تعلیمات کا ہی اثر تھا۔