ٹریفک پولیس طبی امداد دے سکے تو کئی جانیں بچ سکتی ہیں
ہر روز آدھی نیند میں یونیورسٹی جانے کے دوران ایف ایم ریڈیو پر مختلف چینلز ٹیون کرنا میرا معمول ہے۔ مگر گزشتہ جمعے کو کچھ مختلف تجربہ ہوا۔ سڑک پر ایک ٹریفک حادثہ ہوا تھا جس کا منظر دیکھ کر ایسا جھٹکا لگا کہ میری آنکھوں سے وہ آدھی نیند بھی اڑ گئی اور میں باہر سڑک پر نکل آئی۔
جب ہم پرل کونٹینینٹل ہوٹل سے خلیق الزماں روڈ کراس کر چکے تھے تب میں نے نوٹ کیا کہ ٹریفک میں رکاوٹ حائل ہے۔
ہم جب وہاں سے گزرے تو میں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل گری ہوئی ہے اور 15 سے 20 افراد وہاں کھڑے ہیں۔ موٹر سائیکل کے برابر میں ایک ادھیڑ عمر کا شخص اپنے پیٹ کے بل پڑا تھا اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔
میں زیادہ صبر نہیں کر پائی۔ میں ایک میڈیکل طالبہ ہوں، مگر ایسا پہلی بار تھا کہ جب میں نے محسوس کیا کہ کسی کی زندگی در حقیقت میرے اقدامات پر منحصر ہے۔ میں نے اپنا سفید لیب کوٹ پہنا اور اس زخمی موٹر سائیکل سوار کی مدد کے لیے اپنی گاڑی سے باہر نکل آئی وہاں روڈ ٹریفک حادثہ (آر ٹی اے) ہوا تھا۔
میں جیسے ہی ہجوم تک پہنچی تو میں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ کیا کسی نے ایمبولینس کو فون کیا ہے یا نہیں۔ جب دو افراد نے بتایا کہ انہوں نے فون کیا ہے تب میں زخمی کی مدد کے لیے آگے بڑھی۔ میں اس کے ساتھ بیٹھی اور معائنہ کیا کہ کیا وہ ہوش میں ہے اور سانس لے رہا ہے یا نہیں۔
وہ غنودگی میں حالت میں تھا مگر ہوش میں تھا۔
میں نے قریب کھڑے افراد سے حادثے کے بارے میں پوچھا تو مجمعے کے مطابق کوئی ٹکر مار کر بھاگ گیا تھا۔
موٹر سائیکل سوار کو ایک گاڑی نے ٹکر ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ اپنی موٹرسائیکل کے ساتھ سلپ ہو گیا تھا۔ بدقسمتی سے اس شخص نے بھی شہر میں دیگر موٹر سائیکل سواروں کی طرح ہیلمٹ نہیں پہنا تھا جس کے نتیجے میں ہی اس کے سر میں گہری چوٹیں آئی تھیں۔
ساتھ ہی میں نے سر میں لگی اس چوٹ کو بھی ڈھونڈ نکالا تھا جہاں سے خون نکل رہا تھا اور میں نے قریب کھڑے افراد سے کپڑا لانے کو کہا۔ سر سے بہتا خون روکنے کے لیے میں نے زخم پر کپڑا رکھ کر دباؤ ڈالا۔ ساتھ ہی میں اس شخص کو تسلی بھی دیتی رہی ہے کہ ایمبولینس راستے میں ہے اور کچھ ہی دیر میں پہنچنے والی ہے۔
حالات سے ناواقف وہ شخص بے صبری کا مظاہرہ کر رہا تھا اور ہر چند سیکنڈز کے بعد اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔