پاکستان

'بھارت جناح ہاؤس کی پاکستانی ملکیت اور اہمیت کاخیال رکھے'

پاکستان نے جناح ہاؤس کے معاملے پر بھارتی حکومت کو اپنا واضح موقف دے دیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا

اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں واقع جناح ہاؤس بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ ہے، لہذا بھارت اس کا خیال رکھے۔

دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ بھارت جناح ہاؤس کی پاکستانی ملکیت اور اس کی پاکستان کے لیے اہمیت کا خیال رکھے۔

نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان نے جناح ہاؤس کے معاملے پر بھارتی حکومت کو اپنا واضح موقف دے دیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب گذشتہ دنوں ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن منگل پرابھات لودھا نے مطالبہ کیا تھا کہ ممبئی میں واقع بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ملکیت رہائش گاہ کو منہدم کرکے اس کی جگہ ایک کلچرل سینٹر تعمیر کیا جائے۔

مزید پڑھیں: ممبئی میں واقع جناح کی رہائش گاہ کو منہدم کرنے کا مطالبہ

ممبئی میں پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ منگل پرابھات لودھا نے قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ'جنوبی ممبئی میں واقع جناح کی رہائش گاہ سے ہی تقسیم کی سازش کا آغاز ہوا تھا، جناح تقسیم کی علامت ہیں، اس عمارت کو منہدم کیا جانا چاہیے'۔

لودھا نے مزید دعویٰ کیا کہ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کو اس عمارت کی مینٹی نینس اور دیکھ بھال پر ہزاروں ہندوستانی روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

'حسین حقانی کا معاملہ'

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفترخارجہ نے امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کو ویزوں کے اجراء کی اجازت دیئے جانے سے متعلق تبصرہ کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی ویزہ پالیسی وزارت داخلہ بناتی ہے، لہذا حسین حقانی اور ویزوں کے معاملے پر وزارت داخلہ سے رجوع کیا جائے۔

دوسری جانب حسین حقانی کو پاکستان میں سفارتی استثنی سے متعلق سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سفیر کو اپنے ملک میں کوئی سفارتی استثنی حاصل نہیں ہوتا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ ایک امریکی اخبار میں حسین حقانی کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں سابق سفیر نے دعویٰ کیا تھا کہ اوباما انتظامیہ سے ان کے 'روابط' کی وجہ سے ہی امریکا القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔

انہوں نے اپنے مضمون میں امریکیوں کو جاری کیے جانے والے ویزوں کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ویزوں کا اجرا:’پیپلز پارٹی نے حسین حقانی کو بااختیار بنایا تھا‘

بعدازاں گذشتہ ہفتے سامنے آنے والی ایک دستاویز میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو 2010 میں متعلقہ حکام سے کلیئرنس کے بغیر امریکیوں کو ویزوں کے اجراء کا اختیار دیا گیا تھا، جبکہ اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دفتر سے براہ راست یہ اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔

وزیراعظم کی پرنسپل سیکریٹری نرگس سیٹھی کے دستخط سے جاری کیے گئے خط سے پتہ چلا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی امریکیوں کی جانب سے ویزا حاصل کرنے کے لیے درخواست پاکستان کے متعلقہ افسران کو دینے کے بجائے پاکستانی سفیر کی جانب سے فوری طور پر ایک سال کی مدت کے لیے ویزا جاری کرنے کے اختیارات سے مطمئن تھے۔

تاہم امریکیوں کو ویزا اجراء کے معاملے کو 'غیر اہم ایشو' قرار دیتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ سفیر کو اختیار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قاعدے اور قوانین کو نظرانداز کر دیں۔

'پاکستان میں بھارتی مداخلت'

بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے ملک میں بھارتی مداخلت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کلبوشن یادیو کی پاکستان میں موجودگی اور گرفتاری سے بڑھ کر اس کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔

نفیس ذکریا نے کہا 'پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت، پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردوں کی مالی سرپرستی میں ملوث ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں بھی بھارتی سرکاری اداروں کا ہاتھ ثابت شدہ ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک معمول بن چکا ہے، لہذا اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا نوٹس لینا چاہیئے۔

'افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ ضروری'

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ انتہائی ضروری ہے۔

نفیس ذکریا کا کہنا تھا، 'بہتر بارڈر مینجمنٹ سے پاک-افغان سرحد کو دہشت گردی کا موجب بننے سے روکا جا سکتا ہے'۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں امن: 'پاکستان ماسکو کانفرنس میں شرکت کرے گا'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مل کر کام کرنا ہوگا'۔

نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ 4 ملکی کور گروپ مسئلہ افغانستان اور مفاہمتی عمل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ روس نے اپریل میں افغان معاملے پر چھ ملکی گروپ کا اجلاس ماسکو میں بلا رکھا ہے اور پاکستان بھی اس اجلاس میں شرکت کرے گا۔