مردم شماری:وزیراعلیٰ کے مرکز میں 390 شکایات
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے مردم شماری کے حوالے سے شکایت کے اندراج کے لیے قائم مرکزمیں 16 مارچ سے 31 مارچ تک 15 دنوں میں 390 شکایات موصول ہوئیں۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے قائم مرکز شکایات میں موصول ہونے والی شکایات صوبائی مردم شماری کمشنرز کے پاس آنے والی شکایات سے بہت کم ہیں، کمشنرز کے مطابق صرف کراچی سے 567 شکایات موصول ہوئیں۔
حکومت سندھ کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ دونوں جانب کے اعداد وشمار میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ مردم شماری کے حکام کو سندھ کے مخصوص اضلاع سے شکایات براہ راست موصول ہورہی ہے ہیں جہاں سرکاری طورپر پہلے مرحلے کا پہلا ہاف مکمل ہوچکا ہے۔
سندھ حکومت کے ایک سنیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'سندھ کے عوام کے لیے ہماری جانب سے فراہم کی گئی سہولت مردم شماری حکام کے پورے نظام پر ایک ستائشی عمل تھا'۔
مزید پڑھیں:ملک کے 63 اضلاع میں مردم شماری کا آغاز
ان کا کہنا تھا کہ تمام شکایات کو مردم شماری کے تمام اعداد وشمار میں شامل کیا گیا ہے جس کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
وزیراعلیٰ کے مرکز شکایات کی تفصیلات کے مطابق 15 دنوں میں حاصل ہونے والے 390 شکایات میں کراچی جنوبی سے 62، کراچی وسطی سے 42، ضلع شرقی سے 106، ضلع غربی سے 37، ملیر سے 63 اور کورنگی سے 23 شکایات شامل ہیں۔
اسی طرح اندرون سندھ سے حاصل ہونے والی شکایات میں حیدر آباد سے 42، 4 جام شورو اور گھوٹکی سے 12 شکایات درج کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی: رات کی تاریکی میں بے گھر افراد کی مردم شماری
حکومتی ترجمان کے مطابق عوام کی زیادہ ترشکایات مردم شماری ٹیموں کی ان کے گھروں تک رسائی کے حوالے سے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'شکایات کے مطابق ان کے گھروں کو شمار نہیں کیاجارہا ہے اسی طرح عوام نے شکایت کی ہے مخصوص ٹیموں کی جانب سے صرف گراؤنڈ فلور کو شمار کیا جارہا ہے اور عمارت کے دیگر رہائشیوں کو درج نہیں کیا جارہا ہے'۔
انھوں نے کہا کہ مادری زبان کے حوالے سے عوام سے پوچھ گچھ نہ کرنے کی بھی شکایات ہیں جبکہ دیگرشکایات کے مطابق گھر کے افراد کو ان کی اصلی تعداد سے کم شمار کیا جارہا ہے اور گاؤں کے ناقص نقشوں میں بعض گاؤں کے نام شامل نہیں ہیں۔
حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ شکایات کو وزیراعلیٰ تک پہنچائی گئی ہیں اور ان کی ہدایات کے مطابق ضروری کارروائی کے لیے یہ شکایات متعلقہ حکام کو بھیج دی گئی ہیں۔
مردم شماری حکام کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے لیے پنسل کے استعمال اور فارم کی فوٹوکاپی پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے اور اس حوالے سے جتنی بھی شکایات موصول ہوئیں اس پر سخت کارروائی عمل میں لائی جاچکی ہے، اسی طرح اسٹاف کو فارم کے حوالے سے غیرضروری سوالات پر بھی مکمل پابندی ہے۔
خیال رہے کہ پہلے مرحلے میں سندھ کے 8 ضلعوں اور ایک تعلقے میں مردم شماری مکمل ہوچکی ہے۔
سندھ حکومت کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ غلط معلومات دینے والے پر 50 ہزار جرمانہ یا 6 ماہ قید ہوسکتی ہے جبکہ دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔
یہ خبر یکم اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی