پاکستان

پارا چنار میں سوگ کا سماں، ہلاکتیں 24 ہوگئیں

علاقے کے تمام کاروباری مراکز، تعلیمی اداروں اور بازاروں میں سناٹا، جاں بحق افراد کی تدفین کا سلسلہ جاری
|

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی کرم ایجنسی میں گذشتہ روز ہونے والے دھماکے کے 2 زخمی دم توڑ گئے، جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 24 ہوگئی۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پاراچنار کے مصروف ترین نور بازار میں دھماکا ہوا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

دھماکے کے دوسرے دن پاراچنار میں سوگ کا سماں ہے جبکہ علاقے کے تمام کاروباری مراکز، تعلیمی اداروں اور بازاروں میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔

ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال پاراچنار کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کے مطابق دھماکے کے بعد 136 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا تھا جن میں سے 37 شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور روانہ کردیا گیا۔

ایم ایس کے مطابق 40 سے زائد زخمیوں کا علاج ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں جاری ہے۔

بارودی مواد گاڑی میں نصب تھا

ڈان اخبار کی رپورٹ میں عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا گیا کہ دھماکا ایک گاڑی میں نصب بارودی مواد پھٹنے سے ہوا۔

حکام نے تصدیق کی کہ بارودی مواد سے بھری گاڑی کو نماز جمعہ کے اجتماع سے قبل پاراچنار کی مرکزی امام بارگاہ کے خواتین کے گیٹ کے نزدیک پارک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پارا چنار کے بازار میں دھماکا

بازار میں واقع ایک دکان کے مالک اور عینی شاہد محمد تاجر کے مطابق گاڑی میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اور وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی، جبکہ آس پاس انسانی لاشیں اور خون پھیل گیا۔

ایک اور تاجر سردار حسین نے بتایا ’دھماکے کے بعد لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے، دکان پر موجود میرے والد خون میں لت پت تھے جبکہ دو گاہک بھی زمین پر گرے ہوئے تھے‘۔

ایک اور عینی شاہد محمد علی کے مطابق ’پہلے دھماکے کے بعد ہم نے اپنی دکان کے دروازے بند کرلیے کیونکہ ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں دوسرا دھماکا نہ ہوجائے لیکن لوگوں کی مسلسل چیخ و پکار سن کر ہم باہر آگئے‘۔

قبائلی افراد کا مظاہرہ، 1 شخص ہلاک

دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میتوں سمیت رات کو پاراچنار کی پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر پہنچے اور وہاں دھرنا دینے کی کوشش کی۔

ڈان اخبار کے مطابق ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش میں لیویز اور پیراملٹری کے اہلکاروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 1 شخص ہلاک جبکہ 7 زخمی ہوگئے۔

سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد مشتعل مظاہرین نے پاراچنار کی مرکزی امام بارگاہ سے پریس کلب کا رخ کیا اور وہاں دھرنا دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پارا چنار کی سبزی منڈی میں دھماکا،25 جاں بحق

مطاہرین کا مطالبہ تھا کہ ایک لاکھ آبادی کے علاقے پاراچنار کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور گذشتہ سات سال سے ان پر حملوں میں ملوث افراد اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

تاہم بعد ازاں سول و عسکری قیادت کے حکام اور قبائلی عمائدین میں مذاکرات طے پاگئے اور مظاہرین منتشر ہوگئے۔

تدفین و قرآن خوانی کا سلسلہ

دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین اور ان کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا سلسلہ پاراچنار کی مرکزی امام بارگاہ میں جاری ہے۔

دھماکے کے بعد علاقے میں قیام پذیر قبائل کی جانب سے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے باعث پاراچنار میں تمام کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز دھماکے کے چند گھنٹوں کے بعد کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے ویڈیو پیغام کے ذریعے مرکزی امام بارگاہ کے نزدیک ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔

پارا چنار پاک-افغان سرحد پر قبائلی علاقے کرم ایجنسی کا انتظامی ہیڈ کوارٹر ہے، یہ زیادہ آبادی والا علاقہ نہیں ہے، اس علاقے کی آبادی 40 ہزار کے قریب ہے جس میں مختلف قبائل، نسل اور عقائد کے لوگ شامل ہیں، یہ علاقہ 1895 میں انگریزوں نے تعمیر کیا تھا۔

2007ء میں اس علاقے ہونے والی فرقہ ورانہ جھڑپوں کے بعد فوج اور نیم فوجی دستوں نے یہاں کی شاہراہوں پر چوکیاں قائم کی تھیں۔

اگرچہ یہاں فوج اور مقامی قبائلی رضا کاروں پر مشتمل چوکیاں قائم ہیں، لیکن کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی میں دشوار گزار پہاڑی راستے ہیں جہاں سے عسکریت پسند دوسرے علاقوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔