لاہور میں واقع دائی انگہ اور بدھو کے مقبروں کی پُراسرار کہانی
لاہور میں واقع دائی انگہ اور بدھو کے مقبروں کی پُراسرار کہانی
دہلی، آگرہ، فتح پور سرکی، ڈھاکہ، لاہور اور چنیوٹ سے لے کر ٹھٹہ کی بادشاہی مسجد تک مغلیہ دور کی بنی ہوئی تمام شاہی شاہکار عمارتیں آج بھی دیکھنے والوں پر حیرت طاری کر دیتی ہیں۔
اکبر سے لے کر اورنگزیب تک سب نے بلند و بالا عمارات اور حسین فن تعمیرات میں اپنا حصہ ڈالا۔
اپنے دادا اکبر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہ جہان نے بھی اس شوق میں نئی داستانیں رقم کیں۔ 30 سالہ شہنشاہ شاہ جہان نے جو جو عمارتیں، قلعے، مساجد اور مقبرے تعمیر کرائے، ان کی فن تعمیر، نقوش اور مختلف تہذیبوں کو ظاہر کرنے والے عمدہ ڈیزائن کا کوئی ثانی نہیں۔
ان بلند و بالا، خوبصورت اور حیرت انگیز فن و تعمیرات کے لیے اینٹیں، سمینٹ، پتھر، لکڑی، کاشی گری، نقاشی، سنگ تراشی اور کتابت کا ضرور کوئی بندوبست رہا ہوگا۔ برسا برس گزرتے گئے اور کئی کاریگر، مستری، مزدور، محنت کش کی محنت سے عمارتیں اور قلعے بنتے رہے، لیکن ان شاہکار عمارات میں ان کا کوئی خاطر خواہ نام و نشان تک نہیں ملتا۔