ایاز احمد لغاری
گذشتہ برس اپریل میں پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
صحافیوں کے گروپ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پاناما پیپرز سے متعلق دستاویزات دو قسطوں میں جاری کی تھیں، دونوں اقساط میں پاکستان کی طاقت ور اور اثرو رسوخ رکھنے والی 350 سے زائد شخصیات کے نام سامنے آئے تھے، پاناما پیپرز میں شریف خاندان کے نام بھی شامل تھے۔
دستاویزات کے مطابق وزیراعظم کے اہل خانہ اور ان کے بھائی شہباز شریف آٹھ آف شور کمپنیوں سے منسلک ہیں، جبکہ وزیراعظم کے بچے کئی کمپنیوں کے مالک یا وہاں سے پیسے منتقل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، اس انکشاف کے بعد شریف خاندان پر کرپشن الزامات کی ایک تازہ لہر اٹھی اور اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کے خلاف نیا محاذ کھڑا کردیا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ پاناما انکشافات کے معاملے پر تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے پر راضی ہیں۔
عمران خان کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ کے حاٖضر چیف جسٹس (اب ریٹائر) انور ظہیر جمالی کمیشن کی سربراہی کریں جبکہ حکومت سابق جج صاحبان پر مشتمل کمیشن تشکیل دینا چاہتی تھی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک حکومتی ٹیم نے کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو آخری شکل دی۔
پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں نے اس کمیشن کے ٹی او آرز کو حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ مرتب کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد حزب اختلاف نے اپنے ٹی او آرز حکومت اور میڈیا کے سامنے پیش کیے۔ ان ٹی او آرز میں آف شور کمپنیوں کے سلسلے میں تحقیقات کا آغاز شریف خاندان سے کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
حکومتی مؤقف تھا کہ حزب اختلاف صرف وزیراعظم اور شریف خاندان کو ذاتی طور پر ہدف بنانا چاہتی ہے جبکہ حکومت، اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر ٹی او آرز مرتب کرنے کے لیے تیار ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے ٹی او آرز مرتب کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کر دی، جس کے تحت ایک ایسا عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس کا حوالہ انہوں نے پاناما الزامات کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کیا تھا۔
بالآخر حکومت اور حزب اختلاف ایک باہمی 12 رکنی ٹی او آرز کمیٹی تشکیل دینے پر رضامند ہو گئے۔
حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان ایک دوسرے کے مؤقف کو مسترد کرتے اور الزامات لگاتے رہے۔
بعدازاں پی ٹی آئی نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں دی گئی تقریر کی بنیاد پر ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ کے فلور پر متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سمیت جمہوری وطن پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر کی پٹیشنز قبول کرنا شروع کر دیں۔
سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر پٹیشنز کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سماعت کا سلسلہ رک گیا۔ جس کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کرتے ہوئے لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ 'لگتا ہے پٹیشنز دائر کرنے کا مقصد سچ کو ایسے ثبوتوں تلے دبانا تھا جن میں اخبار کے تراشوں کے سوا کچھ موجود نہیں، یہ اخبارات اشاعت کے ایک روز بعد صرف پکوڑے فروخت کرنے کے کام آسکتے ہیں۔'
عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔'
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ’اس دستاویز نے وزیراعظم کے عوام کے سامنے دیئے گئے موقف کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے‘۔
پاناما کیس کی سماعت 23 فروری کو مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا، جس کا سب کو بے صبری سے انتظار ہے۔