کشمیر سے دور نہیں رہ سکتے : پاکستانی ہائی کمشنر
عبدالباسط 2014 سے بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر تعینات ہیں جنہوں نے بھارتی اخبار ’دی اسٹیٹسمین‘ کے جنید کاٹھجو اور ذوالقرنین باندے کو ایک انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے اپنے کام میں درپش چیلنجز اور دوطرفہ پاک بھارت تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت کی ہے جس کا مختصر حصہ ملاحظہ فرمائیے:
سوال: پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی موجودہ پستی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا آپ کا خیال ہے کہ دونوں حکومتیں طویل عرصے سے تھم جانے والی بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں گی؟
جواب: سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک ہم اس مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کریں گے تو اس خطے میں امن کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ ہمیں اس مسئلے کے حل سے دور نہیں بھاگنا چاہیئے کیونکہ یہ مسئلہ ہماری باہمی بد اعتمادی کی وجہ ہے۔ ہم اس مسئلہ پر جنگیں لڑ چکے ہیں۔ بھارت بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت پر رضا مندی ظاہر کرتا ہے اب چاہے آپ اس کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کو لیں یا شملہ معاہدے کو لیں یا قرار داد لاہور کو لیں یا پھر مشترکہ اسلام آباد اعلامیہ کو لیں۔ ہمیں بیٹھ کر اس مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیئے۔ ایک مرتبہ مسئلہ کشمیر حل ہوگیا تو دونوں ممالک کے درمیان بمشکل ہی کوئی ایسا مسئلہ باقی رہے گا جو آسانی اور جلدی سے حل نہ ہوسکے۔
سوال: بھارت نے ہمیشہ زور دیا ہے کہ بات چیت کے آغاز سے قبل سرحد پار دخل اندازی اور دہشت گردی ختم ہونی چاہیئے، پاکستان کا اس پر کیا نقطہ نظر ہے؟
جواب: جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہم بات چیت کے لیے پیشگی شرائط رکھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر ہم ان تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں تو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے لیے شائد ہی کوئی ایسا مسئلہ باقی رہ جائے۔ ہمارا طریقہ کار زیادہ عملی ہے کیونکہ ہمیں دہشت گردی کے بھی خدشات ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی سزا سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے جس کا تعلق اندرونی اور بیرونی طول و عرض سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کبھی نہ کبھی مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا۔ میں اس چیز کا قائل نہیں ہوں کہ ہم ہمیشہ دشمن بن کر رہیں۔
مزید پڑھیں: ہم بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، عبدالباسط
سوال: کیا کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دے دی جائے گی؟
جواب: عالمی عدالت انصاف(آئی سی جے) نے اپنے عبوری فیصلے میں عدالت کے مقدمہ سننے کے اختیارا پر بات کی، لہٰذا قونصلر رسائی کے معاملے پر کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ آئی سی جے نے واضح کردیا تھا کہ اس عبوری فیصلے سے حتمی نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کمانڈر یادیو ایک عام بھارتی شہری نہیں ہے۔ اسے تخریب کاری، دہشت گردی اور بغاوت پر اکسانے کے الزام میں سزا دی گئی ہے۔
سوال: پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ کلبھوشن کے خلاف ٹھوس شواہد فراہم کرے گا؟
جواب: جی ہاں! ہم اس پر غور کر رہے ہیں، میں یہاں ملکی حکمت عملی کا ذکر نہیں کروں گا لیکن ہمیں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یادیو کے ملوث ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے۔ پاکستان کی پوزیشن کلبھوشن کیس میں نہایت مضبوط ہے۔
سوال: بھارتی صنعتکار سجن جندال کے دورہ پاکستان کا کیا مقصد تھا؟ کیا اس میں کلبھوشن یادیو کے کیس کے حوالے سے کچھ تھا؟ کیا اس مسئلہ پر یہ ’ٹریک ٹو‘ قسم کی بات چیت تھی؟
جواب: (عبدالباسط نے ہنستے ہوئے جواب دیا) آپ جانتے ہیں کہ سجن جندال وزیر اعظم نواز شریف سے ملنے کے لیے پاکستان گئے تھے، وہ دونوں ایک دوسرے کو کافی برسوں سے جانتے ہیں لہٰذا اس دورے میں کچھ بھی سرکاری نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: اڑی حملہ:ہندوستان الزامات سے گریز کرے، پاکستانی ہائی کمشنر
سوال: جیسا کہ آپ نے کہا پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا ہے تو پاکستان کشمیر کی موجودہ صورتحال میں سیاسی اور سفارتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان کی کشمیر میں علحیدگی پسندوں کی کھلی حمایت سے ریاست میں حالات بگڑ گئے ہیں؟
جواب: میرا نہیں خیال کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک ان کی علاقائی تحریک ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہائیوں سے جموں اور کشمیر کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں بھی شامل ہے۔ یہ ایک جائز جدو جہد ہے لہٰذا میرا نہیں خیال کہ پاکستان وہاں لوگوں حمایت کر کے کسی بھی طرح ماحول میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت کے اندر کئی آوازیں موجود ہیں جو مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
سوال: بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا ہوا ہے جبکہ بھارت کو یقین ہے کہ یہ ایک دوطرفہ مسئلہ ہے جسے پاکستان اور بھارت کو حل کرنا چاہیئے۔
جواب: یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی قرارداد موجود ہیں۔ اگر بھارت چاہتا ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں تو یہ دو طرفہ مسئلہ شملہ معاہدے کے تحت بھی حل ہو سکتا ہےا ور پاکستان اس مسئلے کو دوطرفہ بات چیت سے بھی حل کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس معاہدے کو 47 سال گزرگئے، میں نہیں جانتا کہ اب اس پر دوطرفہ بات چیت کے لیے مزید کتنے سال لگیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت خود احتسابی کرے۔ پاکستان نتیجہ خیز دو طرفہ بات چیت کے خلاف نہیں ہے۔
سوال: پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات تو سمجھ سکتے ہیں لیکن ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ پاکستانی فوجی بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
جواب: یہ محض الزامات ہیں، پاکستانی فوج ایک پیشہ ور اور دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ ہم ایسے کاموں میں ملوث نہیں ہیں اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی جانب سے کبھی بھی بھارتی فوجیوں کا سر قلم نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ’لاشوں کی بے توقیری کا الزام کشمیر سے توجہ ہٹانے کوشش‘
سوال: پاکستان افغانستان میں بھارت کی جانب سے کیے جانے والے بحالی کے کاموں کی مخالفت کیوں کرتا ہے؟ پاکستان اور بھارت مل کر اور مشترکہ طور پر جنگ زدہ افغانستان میں بحالی کا کام کیوں نہیں کر سکتے؟
جواب: افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2500 کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے، افغانستان ہمارا قریبی ہمسایہ ہے لہٰذا وہاں جو بھی ہوتا ہے اس سے پاکستان اثر انداز ہوتا ہے اسی لیے افغانستان میں امن و استحکام ہمارے ملک میں امن و استحکام کے لیے اہم ہے۔
افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور اسے کسی بھی ملک کے ساتھ روابط رکھنے کا مکمل حق ہے ہمیں ان روابط پر کوئی خدشات نہیں جب تک یہ ہم پر براہ راست اثر نہ انداز ہوں۔ بدقسمتی سے ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب بھی پاکستان کو غیر مستحکم کیا گیا ہے وہ کوشش افغانستان کے ذریعے کی گئی ہے۔ ہم افغانستان سے رابطے میں ہیں اور کابل سے برادرانہ تعلقات کے تناظر میں ہمیں امید ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوگی خصوصاً بلوچستان اور فاٹا کے علاقوں میں۔
اس مضمون کی تیاری میں دی اسٹیٹسمین اور اے این این نے اشتراک کیا
یہ خبر 24 مئی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی