چین میں انٹرنیٹ پر تصاویر اور ویڈیوز وائرل کرانے کا کورس
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس نے جہاں انسانی زندگی پر کئی گہرے اثرات چھوڑے ہیں، وہیں ان کی وجہ سے کاروبار کرنے کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔
کبھی کبھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز سے اتنا زیادہ منافع ہوتا ہے، جتنا نوکری یا بڑے سرمائے سے شروع کیے گئے کاروبار میں نہیں ہوتا۔
وائرل ویڈیوز اور تصاویر سے کاروبار کا اندازہ چین کی ڈجیٹل کاروباری انڈسٹری ’وانگ ہانگ‘ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
وانگ ہانگ کی لفظی معنے تو انٹرنیٹ پر خوبصورت نظر آنا ہے، تاہم اس کا لغوی مطلب ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی کرنا۔
چین میں یہ نیا ڈجیٹل کاروباری طریقہ گزشتہ برس اس وقت مشہور ہوا جب 30 سالہ ژیانگ یلی کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں۔
ژیانگ یلی کو پپی ژیانگ کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے، ان کے چینی سوشل میڈیا پر 2 کروڑ 30 لاکھ فالوؤرز ہیں، ان کے فالوؤرز میں کاروباری ادارے اور اسٹورز بھی شامل ہیں، کیوں کہ وہ ان سے اپنی مصنوعات کی تشہیر کرواتے ہیں۔
پپی ژیانگ کی تصاویر، ویڈیوز اور اسٹریمنگ بلاگس اتنے وائرل ہوگئے کہ کمپنیوں نے انہیں اپنی مصنوعات کو پہننے اور پیش کرنے کی پیش کش کی، جس کے بدلے انہیں بھاری معاوضہ ملا۔
ان کے نقش قدم پر چلنے والی 29 سالہ خوبرو لڑکی وانگ ہوہو اور ان کی دوست وانگ روان بھی ہیں۔
پپی ژیانگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ان 2 دوستوں کی کی تصاویر اور ویڈیوز اتنی وائرل ہوگئیں کہ جو لباس، گھڑی، جوتے، ہیٹ، چشمے یا دیگر چیزیں جو وہ پہنتی تھیں ان کی خریداری میں اضافہ ہونے لگا۔
پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اس عمل کو اپنا پیشہ بنالیا، اور بڑے منصوبے کے ساتھ فیشن اور ماڈلنگ کی چیزیں متعارف کرانے لگیں، جب کہ انہیں بڑی بڑی کمپنیوں کی جانب سے بھی اپنی چیزیں اور ملبوسات کو متعارف کرانے کی پیش کش کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انٹرنیٹ کے حوالے سے تجزیاتی مشورے دینے والے ایک عالمی فورم کے مطابق گزشتہ برس تک چین کی اس نئی ڈجیٹل آن لائن کاروباری انڈسٹری ’وانگ ہانگ‘ کی مالیت 7 ارب 7 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی تھی، جب کہ 2018 تک اس کی مالیت دگنی ہوچکی ہوگی۔
ویڈیوز اور تصاویر کو وائرل کرکے پیسے کمانے کا کورس
اس بڑھتے ہوئے ڈجیٹل کاروبار کو نظر میں رکھتے ہوئے چین کے مشرقی صوبے ژجیانگ کے شہر جنہوا میں واقع ایؤو انڈسٹریل اینڈ کمرشل کالج یونیورسٹی نے اس کا کورس کرانا شروع کردیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق وانگ ہانگ کے کورس کے لیے 30 چینی نوجوانوں نے داخلہ لیا ہے، جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں، جو نہ صرف فیشن ایبل ہیں، بلکہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کرنا بھی جانتی ہیں۔
وانگ ہانگ کورس سیکھنے والے طلبہ میں 21 سال سے لے کر 30 سال سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، جنہیں فیشن، ڈانس، گھومنے، چلنے، پھرنے، بولنے، ویڈیو ریکارڈ کرنے اور سیلفی تصویر لے کر اسے شیئر کرنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔
لڑکیاں دیدہ زیب لباس میں میک اپ کے ساتھ موبائل سے اپنی تصاویر اور ویڈیوز ریکارڈ کرنے کے بعد موبائل کو آخر میں ایک بوسہ دیتی ہیں، اور بعد میں اسے سوشل میڈیا پر شیئر کردیتی ہیں۔
ماہرین اور کاروباری تجزیہ نگار چین میں وانگ ہانگ کے بڑھنے کا خیال ظاہر کر رہے ہیں، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ انڈسٹری آن لائن کاروبار کرنے والی علی بابا جیسی کمپنیوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔