دفتر اور اسکول کے اوقات سے لے کر منٹوں سیکنڈوں میں سمارٹ فونز ٹیبلٹس اور آی پیڈز پر بھاگتے دوڑتے انٹرنیٹ تک ہر طرف رفتار ہی رفتار ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بتایا جاتا تھا کہ انسانی دماغ کی اہلیت آپ کی رفتار اور سوچ سے کہیں زیادہ ہے اور ایک یہ وقت ہے کہ سمجھایا جانے لگا ہے کہ موبائل ایک جگہ رکھیے، انٹرنیٹ بند کیجیے اور یوگا کر کے اپنے دماغ کو سکوں لینے دیجیے۔
10 سے 12 سالوں میں زندگی کی رفتار کو جنگی طیاروں سی تیزی اور پھرتی لاحق ہو گئی ہے۔ بھاگتی دوڑتی موسیقی، اڑتی تیز رفتار سواری، جدید ترین موبائل، زندگیاں اس قدر پھرتیلی ہو چکی ہیں جتنی پہلے کبھی نہ تھیں۔
بے مقصد اور بیکار تیز رفتاری کے جنوں نے جیسے جکڑ لیا ہے۔ یہی بری عادت تھی کہ جو ہمیں مجبور کرتی تھی کہ ہم لاہور سے اپنے آبائی شہر رحیم یار خان تک کا سفر بزریعہ اے ٹی آر 45 منٹ میں طے کریں بجائے چھ گھنٹے کے ریل کے سفر کے۔
قطع نظر ایئرپورٹ کی دو تین گھنٹوں کی اس خواری کے جو 45 منٹ کے سفر کے لیے ہمیں سہنا پڑتی، اور ایک منٹھار ایکسپریس نما جہاز کے تجربے کے، جس کے اے سی اکثر کام کرنا پسند نہیں فرماتے اور کپتان صاحب کی مہارت کے باوجود جو اکثر ہوا میں اڑنے کی بجائے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر چلتا محسوس ہوتا ہے۔ کئی ٹھوس دلایل کے باوجود ہمیں ناگزیر وجوہات کی بنا پر اے ٹی آر نہ مل سکا اور بزنس ٹرین کا سفر ہماری مجبوری بن گیا۔
ہزار دوست احباب نے تسلیاں دیں کہ بھئی کچھ نہیں ہوتا مگر ہمیں خدانخواستہ حادثے کا خوف، ڈاکوؤں کا ڈر، دہشتگردی کا خطرہ، گندے باتھ روم، ٹوٹی سیٹوں کا خوف ایسا مسلط تھا کہ سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ خطرات تو اگرچہ ہوائی سفر کے ساتھ بھی جڑے تھے مگر ان خطرات سے کھیلنے کے ہم عادی تھے اور پاکستان ریلوے کی صورت دیکھے ایک طویل عرصہ ہو چکا تھا۔
بہرحال بڑے لوگوں کی محنت سے دل آمادہ ہوا۔ لاہور ریلوےاسٹیشن پر اترے تو اڑے ہوئے لال رنگ کی قمیضیں پہنے جی دار قلی نے لپک کر ہمارے چار پانچ وزنی بیگ اپنے دائیں، بائیں اور اوپر چڑھا لیے تو ہم نے جتاتی نگاہوں سے میاں صاحب کی طرف دیکھا جو ایک بیگ اٹھائے ہانپ رہے تھے۔