علی محمد شاہ کو بے وفا ندی سے کوئی شکوہ نہیں
علی محمد شاہ کو بے وفا ندی سے کوئی شکوہ نہیں
میں تپتی دھُوپ میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کھڑا تھا۔ میرے مشرق میں دریا کے بہاؤ کا راستہ پھیلا ہوا تھا، میرے مغرب اور شمال میں اُڈیرو لال کے آستانے کا خستہ گنبد نظر آ رہا تھا۔ دریا جہاں تک گیا 'پانی پنتھی' بھی اُس کی چاہت میں وہاں تک گئے۔ دریا سوکھ گیا تو پانی پنتھیوں کے آستانے بھی ویران ہو گئے۔
ہمارے ساتھ وہاں کے مقامی صحافی عبدالرحمان موجود تھے، میرے پوچھنے پر اُنہوں نے جنوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، "یہاں سے چالیس کلومیٹر دور جنوب میں دریا سمندر میں گرتا ہے، مگر جب پانی ہو تب۔ یہاں سے دو تین کلومیٹر پر دریائے سندھ سے کسی زمانے میں مغرب کی طرف ایک ندی نکلتی تھی جسے 'اوچتو دریا' کہتے ہیں۔ جس زمانے میں یہ دریا یہاں سے بہتا تھا تو گھومتا گھامتا کیٹی بندر میں جا کر اپنا سفر ختم کرتا تھا۔"
میں نے عبدالرحمان سے پوچھا کہ، "یہ اوچتو نام کیسے پڑا اس ندی پر؟"
"اوچتو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے 'اچانک'۔ تو یہ بھی دریائے سندھ سے اچانک ہی نکل پڑی ہوگی تو نام پڑ گیا ’اوچتو‘۔"
"یہاں سے کیٹی بندر کتنا دور ہے؟"
"یہاں سے سیدھے چلے جائیں تو اتنا دُور نہیں ہے۔ اگر اوچتو دریا کا کنارہ لے کر چلیں تو ایک سو کلومیٹر سے زیادہ ہوگا۔"