لاہور دھماکے میں شہید پولیس اہلکار سے میری پہلی اور آخری ملاقات
اپنے آبائی شہر گجرانوالہ میں والدین کے ساتھ چھٹی گزارنے کے بعد، میں اور میرا چھوٹا بھائی اگلی صبح جلدی اٹھے تھے کیوں کہ ہمیں لاہور لوٹنا تھا تاکہ ہم وقت پر اپنے دفتر پہنچ جائیں۔
ہماری والدہ نے ہمارے لیے شاہانہ ناشتہ بنایا تھا اور ہم نے بھی بادشاہوں کی طرح ناشتہ کیا۔ جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تب والدہ نے حسب معمول ہمارا صدقہ اتارا تا کہ ہم ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہیں۔
ہمارا سفر ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا اور اس دن موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم اپنی اپنی سیٹوں پر جمے بیٹھے تھے اور کچھ دیر پہلے لسی پینے کی وجہ سے خمار سا محسوس ہو رہا تھا۔
آدھا سفر طے کرنے کے بعد جی ٹی روڈ پر ہم نے ایک پولیس اہلکار کو لفٹ کے لیے ہماری طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے اس شدید برسات میں انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، اسی لیے ہم نے انہیں اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
اہلکار نے ہمیں بتایا کہ برسات کی وجہ سے انہیں ڈیوٹی کے لیے دیر ہو رہی تھی اور یہ کہ ان کے ساتھی اہلکار لاہور میں چوک کے مقام پر انتظار کر رہے ہیں۔ لفٹ ملنے پر انہیں ڈھارس ہوئی۔
پولیس اہلکار میں ایک انوکھی سی قوت تھی، انہوں نے کچھ یوں خاموشی کو توڑا کہ لسی کا خمار ہی اڑ گیا۔ اچانک ہم نے باتیں کرنا شروع کردیں۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی شفٹ کتنے بجے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، صبح سات بجے۔ اور ختم کب ہوتی ہے تو چہرے پر دوسری مسکراہٹ لاتے ہوئے جواب دیا کہ،"ہماری ڈیوٹی کبھی ختم نہیں ہوتی۔"
میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک نیوز چینل میں کام کرتا ہوں اور کئی مسائل سلجھانے پر ہم اپنی پولیس فورس کے مثبت اقدامات کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میڈیا عام طور پر پولیس اہلکاروں کے لیے وسائل بڑھانے اور ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کے معاوضے میں اضافے کے لیے بھی ہمیشہ آواز اٹھاتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا، "تو کیا یہ سب کچھ کافی ہے؟" ان کے سوال نے مجھے چپ کروا دیا اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے اپنے جذبات کی لرزش، کھرے پن اور لطیفہ گوئی سے میرے اس دن کی شروعات کافی سہانی بنا دی تھی۔
جب ہم لاہور پہنچے تو ہم نے انہیں ان کی منزل پر اتار دیا۔ انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور ہم بھی ان کے اتنے ہی شکرگزار تھے۔