Dawn News Television

شائع 25 جولائ 2017 01:24pm

لاہور دھماکے میں شہید پولیس اہلکار سے میری پہلی اور آخری ملاقات

اپنے آبائی شہر گجرانوالہ میں والدین کے ساتھ چھٹی گزارنے کے بعد، میں اور میرا چھوٹا بھائی اگلی صبح جلدی اٹھے تھے کیوں کہ ہمیں لاہور لوٹنا تھا تاکہ ہم وقت پر اپنے دفتر پہنچ جائیں۔

ہماری والدہ نے ہمارے لیے شاہانہ ناشتہ بنایا تھا اور ہم نے بھی بادشاہوں کی طرح ناشتہ کیا۔ جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تب والدہ نے حسب معمول ہمارا صدقہ اتارا تا کہ ہم ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہیں۔

ہمارا سفر ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا اور اس دن موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم اپنی اپنی سیٹوں پر جمے بیٹھے تھے اور کچھ دیر پہلے لسی پینے کی وجہ سے خمار سا محسوس ہو رہا تھا۔

آدھا سفر طے کرنے کے بعد جی ٹی روڈ پر ہم نے ایک پولیس اہلکار کو لفٹ کے لیے ہماری طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے اس شدید برسات میں انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، اسی لیے ہم نے انہیں اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کا فیصلہ کیا۔

اہلکار نے ہمیں بتایا کہ برسات کی وجہ سے انہیں ڈیوٹی کے لیے دیر ہو رہی تھی اور یہ کہ ان کے ساتھی اہلکار لاہور میں چوک کے مقام پر انتظار کر رہے ہیں۔ لفٹ ملنے پر انہیں ڈھارس ہوئی۔

پولیس اہلکار میں ایک انوکھی سی قوت تھی، انہوں نے کچھ یوں خاموشی کو توڑا کہ لسی کا خمار ہی اڑ گیا۔ اچانک ہم نے باتیں کرنا شروع کردیں۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی شفٹ کتنے بجے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، صبح سات بجے۔ اور ختم کب ہوتی ہے تو چہرے پر دوسری مسکراہٹ لاتے ہوئے جواب دیا کہ،"ہماری ڈیوٹی کبھی ختم نہیں ہوتی۔"

میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک نیوز چینل میں کام کرتا ہوں اور کئی مسائل سلجھانے پر ہم اپنی پولیس فورس کے مثبت اقدامات کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میڈیا عام طور پر پولیس اہلکاروں کے لیے وسائل بڑھانے اور ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کے معاوضے میں اضافے کے لیے بھی ہمیشہ آواز اٹھاتا ہے۔

انہوں نے سوال کیا، "تو کیا یہ سب کچھ کافی ہے؟" ان کے سوال نے مجھے چپ کروا دیا اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے اپنے جذبات کی لرزش، کھرے پن اور لطیفہ گوئی سے میرے اس دن کی شروعات کافی سہانی بنا دی تھی۔

جب ہم لاہور پہنچے تو ہم نے انہیں ان کی منزل پر اتار دیا۔ انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور ہم بھی ان کے اتنے ہی شکرگزار تھے۔

بشکریہ لاہور پولیس۔

اس دن دوپہر کو ارفع کریم ٹاور میں میرے دفتر کے باہر ایک دھماکہ ہوا جس کی شدت پوری عمارت میں محسوس کی گئی۔ ہر شخص پر دہشت طاری تھی۔ میں بھی خوف میں مبتلا تھا لیکن میں خود کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی کہ محسوس ہو رہی ہے۔

میں جھجھکتے ہوئے کھڑکی کی طرف گیا، اور یہ جاننے کے لیے آخر ہوا کیا ہے، میں نے باہر جھانک کر دیکھا۔ میں نے اپنے دفتر کی عمارت کے بالکل آگے جلتی ہوئی گاڑیوں سے کالا دھواں اٹھتے دیکھا۔ دوسری چیز جو میں نے دیکھی، وہ تھی اس مقام پر پھیلی ہوئی لاشیں۔

بم دھماکے انسانی جمسوں کی جو حالت کرتے ہیں، اسے دیکھ کر میری روح کانپ اٹھی تھی۔ ہر جگہ خون بکھرا تھا اور فیروز پور روڈ پر موجود لوگ سکتے کی حالت میں تھے۔ جن مناظر کو میں نے آج تک صرف ٹی وی اسکرین پر ہی دیکھا تھا، انہیں پہلی بار اپنی آنکھوں کے آگے دیکھ رہا تھا اور جو کچھ بھی میں دیکھ رہا تھا وہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔

میرے بھائی نے میری خیر و عافیت جاننے کے لیے فون کیا۔ دھماکے کے بعد خیر و عافیت پوچھنے کے لیے دوست احباب کی فون کالز بھی آنا شروع ہو گئیں۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ دفتر میں موجود تمام افراد محفوظ ہیں۔

جب میں اپنے گھر پہنچا تو دھماکے کے بعد کی صورتحال جاننے کے لیے ٹی وی آن کیا۔ وہ پولیس اہلکار جن کی وجہ سے دن کی ابتدا میں میرا موڈ خوشگوار ہوا تھا وہ ٹی وی اسکرین پر تھے۔ ہاں یہ وہی پولیس اہلکار تو تھے، وہ شہید ہو چکے تھے۔

بم دھماکے کے بعد میں اداس تھا؛ لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ وہ شخص جسے چند گھنٹے قبل میں نے اپنی گاڑی میں لفٹ دی تھی وہ میرے دفتر کے آگے اسی دھماکے میں ہلاک ہو چکا ہے، تب میں مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔

مجھے اب بھی ان کی مسکراہٹ یاد ہے۔

اسسٹنٹ سب انسپیکٹر فیاض، خدا آپ کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments