کاروبار

پی ایس او کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ

اگر واجبات کی ادائیگی بروقت ممکن نہیں ہوئی تو ملک میں تیل کی ترسیل کا بحران پیدا ہو سکتا ہے، پی ایس او

اسلام آباد: ملک کی سب سے بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کا کہنا ہے کہ اس کی واجب الوصول رقم مسلسل اضافے کے ساتھ 302 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ صورتحال بدترین گردشی قرضوں کی علامت ہے۔

وفاقی حکومت کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں پی ایس او نے کہا کہ گزشتہ برس 12 اکتوبر کو کمپنی کے گردشی قرضے 248 ارب روپے تھے جو رواں ماہ کی اسی تاریخ کو بڑھ کر 302 روپے ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ مئی 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِحکومت کے اختتام تک پی ایس او کی واجب الوصول رقم 220 ارب تک جا پہنچی تھی تاہم مسلم لیگ (ن) نے متنازعہ اسکیم ’کیش اینڈ بک پیمنٹس‘ کے ذریعے 480 ارب کے گردشی قرضوں کی منظوری دی۔

یہ بھی پڑھیں : گردشی قرضے میں اضافہ، بجلی گھروں کو تیل کی ترسیل معطل

پی ایس او حکام نے رپورٹ میں مالی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے حکومت کو آگاہ کیا کہ پاور جنریشن کمپنیوں پر 267 ارب روپے واجب الادا ہیں جو کل واجب الوصول رقم کا 88 فیصد ہے جبکہ گزشتہ برس پاور جنریشن کمپینوں نے 214 ارب روپے سرکاری آئل کمپنی کو اداکرنے تھے جو کل واجب الوصول رقم کا 87 فیصد تھا۔

پی ایس او کے گردشی قرضے کی سب بڑی وجہ پبلک سیکٹر سے عدم ادائیگی ہے۔ 10 اکتوبر تک گردشی قرضہ 158 ارب ہے جو گزشتہ برس 135 ارب تھا۔

رپورٹ کے مطابق پی ایس او کو واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے حب پاور کمپنی 75 ارب روپے، کوٹ ادو تھرمل کمپنی 34 ارب روپے، پاکستان انٹری نیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) 25 ارب اور ایل این جی کی مد میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) 10 ارب کی مقروض ہے۔

یہ پڑھیں : **پی ایس او کا گردشی قرضے کم اور وصولیاں بڑھانے کا دعویٰ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاور سیکٹر کی جانب سے عدم ادائیگی کے باعث پی ایس او بھی بین الااقوامی اور مقامی کمپنیوں کی 87 ارب کی مقروض ہوچکی ہے۔

اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ایس او 71 ارب روپے کویتی پٹرولیم، قطر گیس اور ایل این جی سپلائیرز کو ادا کرنے کی پابند ہے جبکہ 16 ارب روپے مقامی ریفائنریز کو دینے ہیں۔

پی ایس او حکام نے رپورٹ میں متنبہ کیا کہ اگر تیل کمپنی کو واجبات کی ادائیگی بروقت ممکن نہیں ہوئی تو ملک میں تیل کی ترسیل کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ حالیہ ماہ میں پیٹرولم کی ترسیل میں کمی کی وجہ کیش فلو کی رکاوٹ ہی تھی۔

مزید پڑھیں : گردشی قرضے دوبارہ 400 ارب روپے سے تجاوز کرگئے

واضح رہے کہ پی ایس او کے اعلیٰ عہدیدار نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ پی ایس او واجبات کی ادائیگی کے لیے وزارت توانائی، وزارت خزانہ، پی آئی اے اور ایس این جی پی ایل سے مسلسل رابطے میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں عدم وصولی کے باوجود پی ایس او ملک بھر میں پیٹرولم کی ترسیل پوری کرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم بعض اوقات کمپنی کو مختصر ’قلت‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ خبر ڈان اخبار میں 14 اکتوبر 2017 کو شائع ہوئی