ابے، اتنی بڑی گاڑی نظر نہیں آرہی کیا؟
یہ ایک سال پہلے کی بات ہے جب مجھے سخت صحافتی دفتری اوقات میں نرمی لاتے ہوئے رات کے بجائے صبح کے اوقات میں دفتر آنے کا پروانہ ملا۔ اجازت کیا ملی گویا دل خوشی سے اچھلنے لگا، سوچا کہ اب ہم بھی نائن ٹو فائیو جاب کریں گے، گھر وقت پر پہنچیں گے اور گھر والوں کے گلے شکوے دور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اگلے دن سڑک پر آئے تو دنیا بدلی بدلی سے لگی، لیکن جو بات سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا ٹریفک۔ دل کو تسلی دی کہ آگے معاملہ ٹھیک ہوگا اور منزل کی جانب رواں دواں رہے، لیکن یہ رش تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
جیسے جیسے سفر کٹ رہا تھا، گاڑیوں کی قطاریں بڑھتی ہی جارہی تھی۔ خود سے سوال کیا کہ کیا ہر روز صبح سڑکوں پر گاڑیاں ٹریفک جام کی صورت میں منزل تک پہنچتی ہیں؟ بہرحال اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے بجائے دفتر کا راستہ ناپنے پر توجہ مرکوز کی اور محمد رفیع کے گائے ہوئے صدا بہار نغمے، 'ذرا ہٹ کے، ذرا بچ کے' کے مصداق جوں توں دفتر کی دہلیز تک پہنچے۔
شام کو تمام تر تھکان کے بعد سڑک کا رخ کیا تو پھر وہی حال،دور دور تک گاڑیاں، کہیں کہیں بمپر ٹو بمپر اور اکثر مقامات پر تو رینگتی محسوس ہوئیں۔ صبح کی نِسبت شام میں تو یہ ٹریفک زیادہ ستم ڈھاتا محسوس ہورہا تھا۔ راستے میں ایک دو جگہ معمولی ٹریفک حادثات پر گاڑی اور موٹرسائیکل چلانے والوں کو دستِ و گریباں بھی دیکھا۔ خیر خُدا خُدا کرکے گھر پہنچے اور خود کو سمجھانے کی یہ بھرپور کوشش کی کہ جناب یہ محض آج کا اتفاق نہیں ہے، بلکہ شاید یہ ٹریفک اب عروس البلاد کراچی کا مقدر بن چکا ہے اور ہمیں اب اِسی سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچنا ہوگا۔
پڑھیے: ٹریفک مسائل کا حل صرف چالان میں اضافہ؟
ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیں کہ انتہائی قریب سے بجتے ہوئے گاڑیوں کے ہارن، دن بھر کام کے بعد ٹریفک کا نہ ختم ہونے والا جمود اور گھر دیر سے پہنچنے کی مستقل فِکر انسان کو ذہنی دباؤ، نفسیاتی اُلجھنوں، چڑچڑے پن اور سست روی کا شکار بناتی ہے۔ دورانِ ڈرائیونگ سڑک پر نظر آنے والے جھگڑے دراصل اِسی حقیقت کا مظہر ہیں۔
گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر سالانہ 30 ہزار حادثات پیش آتے ہیں۔ ہم اکثر اِن حادثات کی ساری ذمہ داری صرف اور صرف حکومت اور انتظامیہ پر ڈال دیتے ہیں، لیکن اپنی کوتاہیوں پر نظر ثانی کرنا ہم میں سے اکثر کو پسند نہیں، لہٰذا میں نے اِس تحریر کے ذریعے چند کوتاہیوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
سلو ڈرائیونگ یا انڈراسپیڈنگ
یہاں میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سڑک کو ریس ٹریک سمجھ کر تیز رفتار گاڑی چلائی جائے بلکہ یہاں میرا مقصد اپنی سست رفتاری سے ٹریفک کی روانی کو متاثر کرنے سے ہے۔ یہ ایک پریشان کُن معاملہ ہے جس کا سامنا اِس شہر کے ہر باسی کو روزانہ ہوتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کا بھی کبھی نہ کبھی ایسے افراد سے سامنا ضرور ہوا ہوگا جو سڑک خالی ہونے کے باوجود گاڑی کو بالکل درمیان میں انتہائی سست رفتار سے چلا رہے ہوں، اکثر جب آپ اِن افراد کے برابر پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف موبائل پر محوِ گفتگو تھے اور شاید آپ کے بے تحاشا ہارن بجانے یا توجہ دلانے کو انہوں نے اہمیت دینا مناسب نہیں سمجھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال اب ایک مروج عمل بن چکا ہے کہ اِسے کسی بھی طور معیوب نہیں سمجھا جاتا۔