ٹریفک مسائل کا حل صرف چالان میں اضافہ؟

07 دسمبر 2015
کھلی سڑکوں کو جتنا بھی کھلا کر لیا جائے، جب تک اس ہجوم کو قطار میں لگنا نہیں آئے گا ہر چوراہا بوتل کی گردن بنا رہے گا۔ — اے ایف پی۔
کھلی سڑکوں کو جتنا بھی کھلا کر لیا جائے، جب تک اس ہجوم کو قطار میں لگنا نہیں آئے گا ہر چوراہا بوتل کی گردن بنا رہے گا۔ — اے ایف پی۔

ابھی ہمارے بلاگر دوست اسد اسلم صاحب کا مضمون بحوالہ ٹریفک چالان میں اضافہ پڑھا۔ اس مضمون میں بہت سے ممالک کی مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہمارے ملک کے لیے بھی چالان بڑھا دینے کا نسخہ تیر بہدف ثابت ہو گا۔ بہت سے حوالوں سے اس تجویز کو مؤثر سمجھا جا سکتا ہے، لیکن پاکستان کے زمینی حالات پر نظر رکھتے ہوئے میں تجویز کے عمل درآمد سے پہلے ہونے والی محنت پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

آپ پاکستان کی سڑکوں پر گاڑی چلانے والے ڈرائیوروں کا مشاہدہ کریں تو آپ کو لگے گا کہ 99 فیصد لوگ گاڑی چلانے کے اصولوں سے ناآشنا ہیں، حتیٰ کہ پولیس کی گاڑیاں چلانے والے باوردی سپاہی بھی آپ کو تکنیکی اعتبار سے غلط ڈرائیونگ کرتے دکھائی دیں گے۔ پاکستانی ڈرائیونگ کی بڑی بڑی فاش اغلاط میری نظر میں کچھ یوں ہیں۔

ٹریفک سگنل کی پابندی نہ کرنا

ٹریفک کے سائن بورڈز اور اشاروں کو نہ سمجھنا

لائن اور ٹریک کی پابندی نہ کرنا

ان سب اغلاط کو ہم ٹریفک کے اصول و ضوابط سے ناآشنائی کا شاخسانہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ لوگ صرف تیز لائن یا اوورٹیکنگ کے ٹریک میں ہی کیوں چلنا چاہتے ہیں؟ ون وے کی خلاف ورزی کے خطرات کیا ہیں؟ بلاوجہ ہارن بجانے کے ہمارے ماحول پر کیا اثرات ہیں؟ کسی کے پیچھے گاڑی چلانے کا ہنر سیکھنا کتنا ضروری ہے؟ کیا پکی لائنوں یعنی سڑک کی حد کو ظاہر کرنے والی لائنوں کے باہر گاڑی چلائی جانی چاہیے؟ دائیں موڑ سے پہلے گاڑی کو کہاں روکا جانا چاہیے، گول چکر میں داخلے کے کون سے اصول ہیں؟ سامنے گلی میں کوئی رکاوٹ ہو تو آمنے سامنے سے آنے والی گاڑیوں میں سے راستہ کون دے گا؟

آپ اردگرد گاڑی چلانے والے دوستوں سے ان سوالوں کے جواب پوچھیں تو ہر ایک کی اپنی منطق اور جواب ہوگا جو اسے اس کے استاد نے گاڑی چلواتے وقت بتایا ہوگا، کیونکہ اب یہاں کوئی ایک استاد اور نصاب موجود نہیں اس لیے ہر ایک نے اپنے ماحول سے جو سیکھا وہ ویسا ہی ڈرائیور ہے۔

میرے خیال میں سزا بڑھانے کا تعین کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ لوگوں تک گاڑی چلانے کی تعلیم پہنچ پا رہی ہے کہ نہیں۔ اب اگر ڈرائیونگ کی تکنیک پر لوگوں کو پرکھا جائے تو جرمانے سے بچنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہو۔

یورپ میں جرمانوں کی وجوہات کچھ اس طرح کی بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے دو ٹریک والی سڑک پر تیز ٹریک میں ہی چلتے جانا، سڑک پر اس طرح گاڑی چلانا کہ دوسرے ڈرائیور آپ کی وجہ سے آہستہ گاڑی چلانے پر مجبور ہوں، غلط سائیڈ سے اوورٹیک کرنا، سارے مسافروں کے لیے سیٹ بیلٹ نہ ہونا، ایک سے زیادہ ٹون والا ہارن استعمال کرنا، اپنی گاڑی کی ساخت سے بڑی گاڑی کا ہارن استعمال کرنا، گاڑی کا دھواں چھوڑنا، ٹائروں کا مقررہ حد سے زیادہ گھسا ہونا، بچوں کو ان کی مخصوص نشست کے بغیر بٹھانا، بلاوجہ یا بار بار ٹریک تبدیل کرنا آپ کو جرمانہ دلا سکتے ہیں۔

لیکن ان جرمانوں کے نظام سے پہلے وہ ڈرائیوروں کو اس حد تک تعلیم دے چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑی اور ڈرائیونگ کی قابلیت کے بارے بہتر اندازہ کر سکتے ہیں۔ مزید برآں سڑک پر چلنے کے آداب بچوں کو پری اسکول سے ہی سکھانے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ صبح صبح پری اسکول کے بچے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں چمکدار ویسٹیں پہنے شہر کی گلیوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں اور زیبرا کراسنگز پر چلنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ گو کہ سائیکل چلانے کا کوئی لائسنس نہیں مگر پھر بھی بچوں کو اسکولوں میں سائیکل چلا کر اعزازی قسم کا سائیکل چلانے کا لائسنس دینے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اوائل عمری سے سڑک پر چلنے اور سواری کرنے کی تربیت کی جا سکے۔

اب اگر بغیر تعلیم دیے لوگوں پر جرمانوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو وہ ہمیشہ اس احساس میں رہیں گے کہ پولیس والا غلطی پر تھا، یا وہ رشوت لینا چاہتا تھا اور میں نے اس کی مٹھی گرم نہیں کی اس لیے اس کو جرمانہ کردیا گیا۔ اگر ہمیں ٹریفک قوانین کی بہتر آشنائی ہو تو ہماری سڑکوں پر بھی محفوظ ڈرائیونگ ممکن ہو سکتی ہے۔

میرے خیال میں آنے والے بیس سالوں میں بھی ڈرائیونگ کے اس نظام کو بہتر نہیں کیا جا سکتا، جب تک سڑک پر ان پڑھ ڈرائیور موجود ہیں ٹریفک کی صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنے آنے والی نسل کو محفوظ ڈرائیونگ کی تعلیم دینا ہو گی۔ ڈرائیونگ کی تعلیم کو اسکول کے نصاب کا لازمی جزو بنانا ہوگا، کالجز میں محفوظ ڈرائیونگ کی آگاہی مہموں کا سلسلہ شروع کرنا ہو گا، اور سب سے بڑھ کر ڈرائیونگ لائسنس کو ایک مقدس دستاویز کا درجہ دینا ہو گا جس کا حصول تکنیکی اعتبار سے مشکل ہو۔

لوگوں کو ڈرائیونگ کے قوانین اور اخلاقیات کی موثر تعلیم اور پرکھ ہی آنے والے پاکستان کی سڑکوں کو لوگوں کے لیے محفوظ بنا سکتی ہے، وگرنہ جرمانہ سو سے دو سو کرنے سے کرپشن کرنے والوں کی قیمت بڑھنے کا اندیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ امیر آدمی کے لیے قوانین توڑنے کا دروازہ ہمیشہ نیچا ہی رہے گا۔ ہمیں اس عمارت کو اخلاقی اور علمی بنیادوں پر تعمیر کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کو کم از کم یہ احساس تو ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔

گاڑی چلانے کا مطلب اپنی منزل پر سب سے پہلے پہنچنا نہیں بلکہ سب کے لیے ایسا ماحول بنانا ہے کہ سب بحفاظت اور بروقت اپنی اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ اور پاکستان میں اس وقت کے آنے میں ابھی بہت وقت باقی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس آپشن کے سوا ہمارے پاس کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔ کھلی سڑکوں کو جتنا بھی کھلا کر لیا جائے، جب تک اس ہجوم کو قطار میں لگنا نہیں آئے گا ہر چوراہا بوتل کی گردن بنا رہے گا۔

تبصرے (4) بند ہیں

Sharminda Dec 07, 2015 04:22pm
Agreed. Laikin taleem dainay say ziada taleem ki khwahish ziada zaroori hai. Agar license kuch ruppon kay aiwaz mil sakta hai tu kon lamba rasta ikhtayar karay. License dainay say pehlay proper exam is maslay ko kissi hadh tak hal kar sakta hai. Laikin aik parhay likhay aur samjahdar shehri say jaannay kay bawajood qanoon tornay kay liay jurmana hi wahid hal hai. So taleem, imtehan aur jurmana mil kar is maslay ko hal kar saktay hain. Agar niyat achii ho tu 1 saal main yeh masla hal ho sakta hai. Karachi jaisay baray shehar kay liay 1 saal aik munashib muddat hai.
javed Dec 07, 2015 07:15pm
public transport PWDs kae liyae nahi rukti hae aur na hi 2 seat hae pwds kae liyae
Jamil Syed Dec 08, 2015 05:20am
Main culprit for the traffic jams is encroachment and VIP movements in big cities
جارج Dec 08, 2015 09:00am
جزاک اللہ رمضان صاحب ہمیں ہر شعبے میں تعلیم کی اشد ضرورت ہے، خاص کر سیاسی حلقوں میں جو نہ صرف سڑکوں اور ٹریفک کے قوانین سے غافل ہیں بلکہ قانون فطرت اور حقائق کے علم سے بھی غافل ہیں، جس کے باعث عام عوام کی دنیا بھی جہنم بن گئی ہے ۔