ضعیف العمر شخص نے 35 سال بعد قانونی جنگ جیت لی
لاہور: بستر سے لگے 90 سالہ شخص نے اپنی زمین حاصل کرنے کے لیے قانونی جنگ 35 سال بعد جیت لی۔
محمد رمضان بے زمین تھے اور 1982 میں انہیں ساہیوال میں کم آمدنی والوں کے ہاؤسنگ اسکیم میں 10 مرلے کا پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا، تاہم ہاؤسنگ، جسمانی اور ماحولیاتی منصوبہ بندی ڈیپارٹمنٹ کے ملازم فیض اللہ نے متعلقہ حکام کی بناوٹی بے خبری کے باعث غیر قانونی طور پر اس پلاٹ کو اپنے 6 مرلہ کے پلاٹ کے ساتھ ضم کردیا۔
محکمے کی انتظامیہ، ڈپٹی کمشنر اور لاہور ہائی کورٹ سمیت انصاف حاصل کرنے کے تمام فورمز نے محمد رمضان کے حق میں فیصلہ دیا، تاہم حکومت سیکریٹری ہاؤسنگ کے ذریعے ان فیصلوں کو چیلنج کرتی رہی اور بالآخر یہ کیس سپریم کورٹ چلا گیا۔
عدالت عظمیٰ میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عاصمہ حمید نے وکیل استغاثہ جبکہ ایڈووکیٹ تفضل حیدر رضوی نے وکیل صفائی کی حیثیت سے دلائل دیئے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فیض اللہ نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنے محکمے کے ساتھیوں کی ملی بھگت سے محمد رمضان کے پلاٹ کو غیر قانونی طور پر اپنے پلاٹ میں ضم کردیا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ انصاف کی فراہمی کے دیگر فورمز نے بھی محمد رمضان کے حق میں الاٹمنٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا، جبکہ زمین کی الاٹمنٹ میں کوئی گڑبڑ کی گئی جس کا 1985 کو اپنے فیصلے میں ڈپٹی کمشنر نے بھی ذکر کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ محکمہ ہاؤسنگ احکامات پر عمل سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، تاہم چونکہ محمد رمضان نے کوئی رقم ادا نہیں کی اس لیے حکومتی وکیل نے درست کہا کہ محمد رمضان کو زمین اس قیمت پر حوالے نہیں کی جاسکتی جو الاٹمنٹ کے وقت تھی۔
عدالت عظمیٰ نے پلاٹ پر محمد رمضان کے حق کو برقرار رکھا، تاہم ساتھ ہی حکم دیا کہ زمین کی ملکیت کی منتقلی کے لیے محمد رمضان کو اس کی مجودہ مارکیٹ قیمت ادا کرنی ہوگی۔
یہ خبر 26 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔