ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کرکٹ ڈھیر ہوگئی تھی- چھ کپتانوں کی قیادت میں، ٹیم نے 33 ٹیسٹ کھیلے، لیکن صرف 2 ہی جیت پائی-
بھٹو نے خود، کاردار سے کرکٹ بورڈ کا سربراہ بننے اور ٹیم کی ڈگمگاتی قسمت کو سنبھالنے کے لئے کہا-
اپنے سخت ترین طریقہ کار کے لئے مشہور، کاردار نے کرکٹ بورڈ کی سربراہی بلکل اسی طرح کی جیسے انہوں نے اپنی ٹیم کی، کی تھی، یعنی بلکل ایک آمر کی طرح-
وہ ٹیم میں جوان خون لانے کی وجہ بنے- انہی کی زیر نگرانی عمران خان، سرفراز نواز، وسیم راجہ اور میانداد جیسے مستقبل کے روشن ستارے ٹیم کا حصّہ بنے-
حالانکہ انہوں نے 1975 تک تجربہ کار انتخاب عالم کو کپتان بناۓ رکھا، 1976 میں انہوں نے سوچا کہ جتنا ٹیم میں ٹیلنٹ ہے اتنے اچھے نتائج ٹیم نہیں دے رہی-
چناچہ انہوں نے انتخاب عالم کو ہٹا کر انکی جگہ جارحیت پسند، مشتاق محمد کو کپتان بنا دیا-
مشتاق کے بھائی، لٹل ماسٹر حنیف محمد، کاردار کی قیادت میں کھیل چکے تھے، اور انسے متاثر تھے- کاردار اس بات کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور سمجھ رہے تھے کے مشتاق بھی اپنے بھائی کی طرح انکے فرمانبردار رہیں گے-
لیکن کاردار کو جھٹکا اس وقت لگا، جب مشتاق نےکپتان کی حیثیت سے اپنی پہلی ہی سیریز(نیوزی لینڈ ، 1976) میں کاردار پر براہراست چڑھائی کر دی-
کاردار نے حنیف کو بھی اس معاملے میں گھسیٹا اور انکو کہا کہ اپنے بھائی کو تھوڑی عقل سکھاۓ، لیکن مشتاق نے ایک نہ سنی-
مشتاق نے اپنے کھلاڑیوں کے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا لیکن کاردار نے مسترد کردیا- انہوں نے مشتاق کو ہٹا کر انتخاب کو واپس کپتان بنا دینے کی دھمکی دی اور انہوں نے پاکستان کے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے سے پہلے ایسا کر بھی دیا-
انہوں نے مشتاق اور اس کے حمایتیوں عمران خان، آصف اقبال، ماجد خان اور سرفراز نواز کو سلیکٹرز کے ذریعہ ہٹا کر اس لمبے دورے کے لئے بلکل نئی ٹیم منتخب کر لی-
اس سے پہلے کاردار نے حیدرآباد میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں 11 فرسٹ کلاس کھلاڑیوں کو بلایا اور انکو ڈریسنگ روم میں بیٹھا دیا کہ اگر مشتاق اور اسکی ٹیم معاوضے کے معاملے میں کاردار سے مخالفت کرے تو دوسری ٹیم کو استعمال کیا جا سکے-
ٹاس کے وقت، پاکستانی ڈریسنگ روم 25 کھلاڑیوں سے بھرا ہوا تھا-
بھٹو دور کے وزیر قانون، حفیظ پیرزادہ، نے مداخلت کی اور مشتاق کے مطالبوں کو تسلیم کر لیا-
کاردار کا حوصلہ ختم ہو گیا اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن بھٹو نے انہیں اپنا کام جاری رکھنے پر اصرار کیا- جب جون 1977 میں ضیاء الحق نے ایک فوجی بغاوت میں بھٹو کا تختہ الٹ دیا تو کاردار کو غیر رسمی طور پر بورڈ کے اعلیٰ عہدے سے ہٹا دیا گیا-
انہوں نے 1980 میں پی پی پی کو چھوڑ دیا- وہ ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے جب 1987 میں پی ٹی وی نے انہیں پاکستانی ٹیم کے، پانچ ٹیسٹ میچوں کے انڈیا دورے کے کمینٹری پینل جوائن کرنے کو کہا-
جب عمران خان نے، بنگلور میں آخری ٹیسٹ میچ، انڈیا کے خلاف جیتا تو کاردار اپنے جذبات میں قابو نہ رکھ سکے اور لائیو نشریات پر بول پڑے :" ہم نے ہندوؤں کو انکی زمین پر شکست دی ہے- ہم نے ہندوؤں پر فتح حاصل کرلی-"
کچھ نے اس بیان کے لئے، کاردار کی انگوری سکاچ کی حد سے زیادہ پسندیدگی کو مورد الزام ٹھرایا، دوسروں نے اسے بڑھتی ہوئی عمر کا تقاضہ کہا (جبکہ اس وقت وہ صرف 62 سال کے تھے)-
اپنے آبائی شہر، لاہور میں 1996 میں، 71 سال کی عمر میں، وہ وفات پا گۓ-
کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے 1950 میں کاردار کی قیادت میں کھیلا وہ کبھی انکی مخالفت نہ کر پاۓ ، اور اس کے بعد بھی کئی دہائیوں تک ان سے نظر نہ ملا پاۓ-
ترجمہ: ناہید اسرار