یقیناً، قانون ہاتھ میں لینا ٹھیک نہیں، مگر ...
’میں رات کے وقت گھر جارہا تھا، ایک سنسان موڑ پر موٹر سائیکل پر دو افراد نے میری گاڑی روکنے کی کوشش کی، لیکن میں نے رکنے کے بجائے بلا تاخیر اپنی گاڑی کو اُن کی طرف موڑ دیا، موٹر سائیکل کو سائڈ ماری اور نکل گیا۔ بیک مرر کی مدد سے پیچھےدیکھا تو وہ دونوں سڑک پر پڑے نظر آئے، لیکن مجھے اُن سے کوئی ہمدردی نہیں تھی، اُن کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔‘
میں یہ بات ایک سنجیدہ اور قانون پسند شہری سے سُن رہا تھا۔ کراچی میں عوام اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان نفرت کی دیوار اِس قدر اونچی ہوگئی ہے کہ اِس خلیج کو پاٹنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک پیٹرول پمپ پر ڈکیتی کی واردات کے دوران ایک گاڑی نے ڈاکو کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، اور پھر دو بارہ آکر اُسے کچل دیا۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ایسے ہی المناک واقعات پیش آئے۔ گلشن اقبال میں ایک کار سوار نے بھی ایسی ہی ایک واردات دیکھ کر اپنی گاڑی سے ڈاکوؤں کو کچل ڈالا، الیکٹرونکس مارکیٹ میں بھی ڈکیتی کی واردات میں مزاحمت پر ایک دکاندار ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہوا، اور پھر عوام نے ڈاکووں کو گھیرلیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے دونوں ہی ڈاکو ہلاک ہوگئے۔
اِن واقعات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے کراچی میں ایک عرصے سے جنگل کا قانون رائج ہو، جہاں روزانہ اسٹریٹ کرائم کی سینکڑوں واراداتیں ہوتی ہیں اور اُن وارداتوں کے نتیجے میں مزاحمت پر تشدد اور قتل کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
بے بس عوام غم و غصے کے ساتھ ساتھ نفساتی مسائل کا بھی شکار ہورہے ہیں۔ کراچی میں اور کسی معاملے میں میرٹ ہو یا نہ ہو، لیکن لوٹ مار اور ڈکیتی کی وارداتوں میں مساوات ہے۔ یہ وارداتیں بلا تخصیص ہوتی ہیں، کیونکہ شکار ہونے والوں میں اہم منصب پر فائز افراد بھی ہوتے ہیں اور عام لوگ بھی۔
کراچی میں ایک طویل عرصے سے لاقانویت کا راج ہے، جہاں قاتل عدالتوں سے بَری ہوجاتے ہیں اور قانون کی پاسداری کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک خیال تو یہی آتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے، اور قانون کی اِسی کمزوری کی وجہ سے عام لوگوں نے پولیس کو شکایات کرنے کے بجائے خود سڑک پر انصاف کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔