احمد فراز: رومان کی علامت، مزاحمت کا استعارہ
احمد فراز: رومان کی علامت، مزاحمت کا استعارہ
حروف بھی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں، کسی پر نچھاور ہوجایا کرتے ہیں اور کسی کی ریاضت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ وہ خوش نصیب تخلیق کار ہوتے ہیں، جن کے لیے حروف، معنی و متن کے لیے اپنی تاثیر وقف کردیتے ہیں۔ احمد فراز ایسے ہی واحد متکلم شاعر تھے، جن کے ہاں رومان کی علامتوں سے لے کر، مزاحمت کے استعاروں تک، ہجر کے مراحل سے وطن پرستی کی فکری اساس تک، معنویت کے کئی در وا ہوتے تھے، اُنہیں حروف اور موضوعات کی کوئی قلت نہ تھی، وہ اپنی شعری روایت اور تاثیر میں اپنی مثال آپ تھے۔
سفرِ شوق ہو یا منزلِ غم
کوئی ہنگامہ اُٹھا کر گزرو
ایک پل ٹھہرو بگولوں کی طرح
اور پھر خاک اُڑا کر گزرو
سنہرے جذبات کی روشنائی سے لکھے ہوئے مضامین عاشقی ہوں یا جبر کی قوتوں کے خلاف گونج دار آواز، وہ ہر آزمائش میں نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے شعری منظرنامے پر، اُن کے کنندہ حروف، پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، حسین چہروں کے دل کی بات کرنے والے شاعر کے طور پر بھی مقبولیت اُن کے حصے میں آئی اور اُس کا وہ خوب اظہار بھی کرتے تھے۔