’امریکا کے ساتھ غلط فہمیاں دور کرکے بامقصد مذاکرات کیے جائیں‘
وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر اپنائے جانے والے جارحانہ رویے پر امریکا کی جانب سے آنکھیں بند کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ غلط تصورات اور غلط فہمیوں کو دور کرکے’ بامقصد‘ مذاکرات کیے جائیں۔
قومی اسمبلی میں حکومتی خارجہ پالیسی اور ملک میں سیکیورٹی حالات پر پالیسی بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وقت سخت انداز کا نہیں بلکہ عاجزانہ رویے کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے درمیان تمام امور میز پر حل کرنے کا ہے۔
وزیر دفاع نے کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بنیادی اختلافات میں سے ایک بھارت کا تصور تھا، واشنگٹن کی جانب سے متعدد مرتبہ پاکستان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت خطرہ نہیں ہے، لہٰذا پاکستان کو اپنا اسٹریٹجک موقف تبدیل کرنا چاہیے، لیکن سچائی یہ ہے کہ بھارت کی صلاحیت اور ارادے دونوں آج بھی پاکستان کے خلاف ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا کے ساتھ فوجی اور انٹیلیجنس تعاون معطل کردیا، وزیر دفاع
خرم دستگیر نے الزام لگایا کہ پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارت کا جنگی سامان اور چھاؤنیاں ہیں جبکہ 2017 کا سال بھارت کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی اور شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے خطرناک ترین رہا۔
انہوں نے کہا کہ آج بھارت ایک بڑا عسکریت پسند اور ہمارا جارحانہ ہمسایہ بنا ہوا ہے، بھارت کی موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان مخالف اقدامات امن کے عمل کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں ناکام ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے اور اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں امن قائم کیا۔
انہوں نے امریکا کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں، انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ وہ 2001 کے بعد دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔
وزیر دفاع کے بیان کے بعد ایوان میں خارجہ پالیسی کے معاملے پر ایک بحث چھڑ گئی اور نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی اتحادیوں کی جانب سے اسے ناکافی اور مبہم بیان قرار دیا گیا۔
ارکان اسمبلی نے موقف اختیار کیا کہ خارجہ پالیسی کی ابتدا پارلیمان سے ہوتی ہے اور اس میں دوسرے اداروں کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کی جانب سے وزیر دفاع کے پالیسی بیان کا خیر مقدم کیا گیا اور تجویز دی گئی کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو ایک مستحکم نقطہ نظر کے ساتھ جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا غیر ذمہ دارانہ رویہ برداشت کرسکتا ہے لیکن پاکستان اسے برداشت نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا امریکا کے ساتھ اتحاد نہیں، وزیر خارجہ کا دعویٰ
پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی ڈاکٹر شیری مزاری کی جانب سے وفاقی وزیر کے بیان کو مبہم قرار دیا گیا، انہوں نے کہا کہ انہیں امریکا کی جانب جارحانہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ملک کے وقار اور خودمختاری کو بحال کرنے کی لازمی کوشش کرنی چاہیے۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اتحادی بننے پر حالیہ حکومتوں کی پالیسی پر تنقید کی۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اداروں کی جانب سے ملک میں جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کے خطرات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس جنگ کے بادل پاکستان پر بھی منڈلا سکتے ہیں۔
یہ خبر 16 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی