Dawn News Television

اپ ڈیٹ 07 فروری 2018 11:54am

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

وطن عزیز کے مقدر پر ملال کریں یا پھر دنیا کے آگے منہ چھپائیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب بہت مصروف شخصیت ہیں، وہ عوام کی خدمت میں اِس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی اور کام کے لیے وقت ہی نہیں بچتا، لیکن حیران کن طور پر گزشتہ 2 دنوں سے لگاتار انہوں نے 2 طویل پریس کانفرنس کے لیے وقت نکالا۔ ایک میں وہ اپنی ٹیم پر فخر محسوس کرتے دکھائی دیے تو دوسری میں نیب سے اس بات پر ناراض دکھائی دیے کہ آخر ’انہیں کیوں بلایا؟‘

پرسوں یعنی 22 جنوری بروز پیر شہباز شریف نے نیب کو اُس کی اوقات یاد دلاتے وقت جوشیلا خطاب بھی کیا۔ پنجاب کے لیے جتنے بھی انہوں نے منصوبے گنوائے، یقین جانیے انہیں سن کر دل باغ باغ ہوگیا۔ پنجاب میں کامیاب حکمرانی کے 10 سالوں کی روداد سن کر سوچا کہ کیا ہی بھلا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی وزیراعلیٰ وادئ مہران اور بلوچستان کے نصیب میں ہوتا۔

پھر اُس سے اگلے روز یعنی 23 جنوری بروز منگل کو وزیر اعلیٰ کی ایک اور پریس کانفرنس دیکھی، جس میں وہ قوم اور معصوم زینب کے والد کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ ان کی ٹیم نے دن رات کام کرکے قاتل کو پکڑلیا ہے۔

سچ پوچھیے تو اس پریس کانفرنس کو دیکھنے کے بعد مجھے اپنی آرزو پر شرم محسوس ہونے لگی اور یہ خیال فوراً ہی ذہن سے کہیں بہت دور جاگرا کہ کاش ایسا ہی وزیراعلیٰ کسی اور صوبے کو بھی نصیب ہوتا۔

پڑھیے: زینب قتل کیس: 'فوج کی نگرانی میں جے آئی ٹی بنائی جائے'

درمیان میں کسی شہنشاہ کی طرح بیٹھے خادم اعلیٰ اپنے آس پاس موجود افسران و عہدیداران کی ایک محفل کے میر مجلس معلوم ہورہے تھے۔

شہباز شریف گویا ہوئے کہ زینب کا قاتل پکڑا گیا، اور یہ خبر بتانے کے بعد ستائش کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آپ کھڑے ہوں، تالیاں، آپ بھی کھڑے ہوں، آپ مبارکباد کے مستحق، آپ کھڑے ہوں ان کے لیے بھی تالیاں۔ ان تالیوں، مبارکبادوں اور مسکراہٹوں کی محفل میں سفید داڑھی اور سفید ٹوپی میں ایک شخص خاموشی کے ساتھ اس محفل ستائش باہمی میں تھکی تھکی نظروں کے ساتھ ادھر ادھر دیکھے جا رہا تھا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ بدنصیب زینب کا باپ تھا۔

جب شہباز شریف اور اُن کی پوری ٹیم نے قاتل کو پکڑنے کا مکمل کریڈٹ حاصل کرلیا تو اُن کو اچانک خیال آیا کہ اُن کے درمیان وہ زخمی شخص بھی موجود ہے جس پر قیامت ٹوٹی ہے، اور اِس خیال کے آتے ہی مائیک کا رُخ اس بزرگ کی جانب موڑ دیا گیا کہ وہ بھی کچھ بات کریں۔ مگر ابھی گنتی کے چار الفاظ ہی ادا کیے ہوں گے کہ شہباز شریف نے ان کے مائیک کو بند کرنا ہی بہتر سمجھا کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ آگے وہ جو کچھ کہنے والے ہیں اُس سے پوری محفل بے رنگ ہوسکتی ہے۔

پڑھیے: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکاء نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘

اس شخص کے الفاظ حلق میں ہی رہ گئے اور حیران نظریں مخدوم اعلیٰ کے چہرے پر جمی رہ گئیں۔ مائیک آواز کی طاقت بڑھاتا ہے، لہٰذا شہباز شریف صاحب نے صرف مائیک بند نہیں کیا بلکہ ایک آواز دبانے کا مکروہ عمل کیا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ میری زباں پر اقبال کا شعر آ گیا،

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

وزیر اعلیٰ صاحب سے جان کی امان پاکر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب ٹی وی پر جو اشتہارات چلتے ہیں نا، ان میں دراصل رشتوں اور ان کے نازک احساسات کا استعمال کرکے چیزیں بیچی جاتی ہیں، ان میں حقیقت کچھ نہیں ہوتی۔ ایک ماں بیٹے یا باپ بیٹے، یا پھر محبوب اور محبوبہ کے دو کردار خرید کر ان میں ممتا یا شفقت یا پیار کی اداکاری دکھا کر صارفین کے دل جیتنے کی کوشش کی جاتی اور بے چارے سادہ صفت لوگ ان جھوٹ موٹ کے رشتوں کو اتنا قریب محسوس کرلیتے ہیں کہ کمپنی کا پراڈکٹ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔

مگر وزیر اعلیٰ پنجاب صاحب، آپ کو تو اپنی سیاسی تشہیر کرنی بھی نہیں آئی، انہیں تو انسانی جذبات کا ذرا برابر بھی احساس نہیں۔ پوائنٹ اسکورنگ کی جگہ اور موقع تو دیکھ لیا ہوتا۔ کبھی آپ سیاہ رات کے اندھیروں میں غریب کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، کبھی ظالم حکمرانوں کی طرح غریب اور مظلوم کی آواز کو بند کردیتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ ہمارے ملکی اداروں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، بلاشبہ متعلقہ ادارے اور افسران و اہلکار شاباشی کے حقدار ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک 6 سال کی مقتولہ بچی کے باپ کے سامنے یوں مسکراہٹیں بکھیرنا اور تالیاں بجوانا انسانی اصولوں کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ اس کی توہین ہے۔

شہباز شریف گویا ہوئے کہ زینب کا قاتل پکڑا گیا، اور یہ خبر بتانے کے بعد ستائش کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

آپ کی طرف سے اتنے فخر اور حیرانی کا عنصر بھلا کیونکر غالب آیا؟ آپ کی جانب سے بار بار مبارکباد کا لفظ سن کر تو مجھے یوں لگا جیسے آپ اور آپ کی ٹیم نے پہلی مرتبہ کسی قاتل کا پکڑنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے، کیونکہ اگر آپ مستقل طور پر یہ کام کررہے ہوتے تو یقیناً آپ کے لیے یہ کوئی کارنامہ نہیں ہوتا بلکہ ایک عام روٹین کا حصہ ہوتا۔

پڑھیے: زینب بیٹا، معاف کرنا، کیونکہ انصاف تو تمہیں بھی نہیں ملے گا!

یہاں اہم ترین بات یہ کہ آپ نے پوری پریس کانفرنس میں متعدد مرتبہ یہ کہا کہ اِس طرح کے قتل کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہیے، لیکن اگر وقت ملے تو اپنی پریس کانفرنس کو ایک مرتبہ غور سے ضرور دیکھیے گا، آپ نے جس بے دردی سے اِس پورے واقعے کو گزشتہ روز سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے خرچ کیا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر آپ کے نزدیک اِس واقعے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا مقصود نہیں ہوتا آپ کبھی بھی خود سامنے نہیں آتے، بلکہ یہ اعلان اُس ٹیم کے سربراہ کرتے جس نے قاتلوں کو پکڑنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے

یاد رکھیے حبیب جالب کے شعر پڑھنے سے کوئی عوامی انقلابی نہیں بن جاتا، عوامی بننے کے لیے اُن کی آواز بنا جاتا ہے، ظلم اور سفاکیت کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے شدید رد عمل کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ عوام میں جا کر تحرک پیدا کیا جاتا ہے۔ انقلابی اور نظریاتی رہنما کسی مظلوم سے ملاقات کے لیے رات کی تاریکی تلاش نہیں کرتا اور نہ ہی مائیک کو جھٹک کر مروڑ دیتا ہے۔

کل کا دن یہ نوید تو لایا کہ پاکستان میں انصاف مل سکتا ہے لیکن دن ڈھلنے کے ساتھ یہ پیغام بھی مل گیا کہ ابھی تک ہمارے ملک میں ایک حاکم طبقہ ہے جو کسی کو حلق سے لفظ نکالنے تک کی اجازت نہیں دیتا اور ایک دوسرا طبقہ ہے جو اب بھی غریب ہے، مظلوم ہے، محکوم ہے۔

شہباز شریف صاحب کو مشورہ ہے کہ سڑکیں، موٹروے، بجلی اور انفرا اسٹرکچر ضروری ہیں، بہت ضروری ہیں لیکن عوام کا درد اپنا درد سمجھنا، ان کے دکھوں کا مداوا کرنا، ان کے آنسوؤں کو پونچھنا، ان کے جذبات کا حوصلے کے ساتھ احترام کرنا اور ہم آواز ہونا ایک سچّے اور عوامی لیڈر کی خاصیت ہوتی ہے۔

میری دعا ہے کہ میرے دیس میں اب کوئی زینب سفاکیت اور حیوانگی کا نشانہ نہ بنے، خدا نہ کرے ایسا پھر کبھی ہو کہ ایک غریب کی بیٹی کا کفن ابھی میلا بھی نہ ہوا ہو اور حاکم وقت قہقہہ لگاتا ہو، کیونکہ ایسا منظر دیکھ کر اُن والدین پر ایک اور قیامت ٹوٹتی ہے۔

Read Comments