پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل کے ملزم کی گرفتاری پر پنجاب حکومت کو مبارک باد دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے پر فوج کی نگرانی میں ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ اس مشترکہ تفتیشی ٹیم میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے افسران کو شامل کرکے تحقیقات کی جائیں کہ آیا گرفتار ہونے والا ملزم اکیلا تھا یا پھر اس کے پیچھے کوئی بڑا گروپ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس ملزم کی پشت پر کوئی گینگ کام کررہا تھا تو اُسے بھی عوام کے سامنے لایا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ کام اس شخص سے دباؤ کے تحت کروایا جاتا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں پنجاب حکومت اور وہاں کی پولیس پر ذرا بھی یقین نہیں ہے کیونکہ زینب کے قتل کے بعد جو کچھ قصور میں ہوا، وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، لہذا اس بات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہے کہ اصل ملزم یہ ہے یا پھر یہ کام کسی اور بااثر یا طاقتوار شخصیت کے کہنے پر کیا گیا'۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ قصور میں پہلے بھی 300 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے کا واقعہ پیش آچکا ہے، جبکہ زینب سے پہلے 11 بچیوں کو اسی طرح زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ معاملے کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں جس سے معلوم ہوسکے کہ اصل ملزم کون ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ 'پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بچوں کا ریپ کیا جائے اور ان کی ویڈیوز بنا کر باہر فروخت کی جائیں، یقیناً یہ ہم سب کے لیے شرمناک بات ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے زینب کی بھی ویڈیو بنائی گئی ہو اور اگر بعد میں یہ سامنے آئی تو قوم کے زخم پھر سے تازہ ہوجائیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ پیچھے بیٹھ کر جو لوگ یہ کام کررہے ہیں، انہیں پکڑا کر سامنے لایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرا مطالبہ ہے کہ یہ اس درندگی کے خلاف آغاز ہو اور ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی جائے، چاہیے وہ کتنے ہی طاقتوار کیوں نہ ہوں'۔

مزید پڑھیں: زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا، وزیر اعلیٰ پنجاب

پی ٹی آئی رہنما نے شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں زینب کے والد کی موجودگی میں لیگی رہنماؤں کی جانب سے جشن منانے پر افسوس کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز زینب قتل کیس میں ایک بڑی پیشرفت ہوئی تھی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کمسن بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

لاہور میں زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’قوم کی بیٹی کے قتل پر پوری قوم کے دل اشک بار ہے، قاتل کی گرفتاری کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے دن رات کام کیا جبکہ پنجاب فارنزک لیب نے تحقیقات میں مدد کی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’زینب کا قاتل 24 سالہ عمران علی سیریل کلر ہے اور قصور کا رہائشی ہے، جس پر دو سال کے عرصے میں 6 سے 7 بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے کا الزام ہے۔‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’زینب کے قاتل کی گرفتاری کی کوششوں کے دوران ایک ہزار 150 ڈی این ایز کی پروفائلنگ کی گئی، ڈی این اے میچ ہونے کے بعد پولی گرافک ٹیسٹ بھی کیا گیا جس میں عمران نے اپنی درندگی کا اعتراف کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: ایک شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ مثبت آنے کی متضاد اطلاعات

انہوں نے کہا کہ ’ملزم کی گرفتاری کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا، اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی باری ہے، قتل کا کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں جائے گا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ دن رات کیس چلنا چاہیے، میرا بس چلے تو اس بھیڑیئے کو چوک پر لٹکا کر پھانسی دوں لیکن ہمارے ہاتھ قانون و آئین سے بندھے ہوئے ہیں، تاہم اگر عدالت نے حکم دیا تو عمران کو چوک پر سر عام پر پھانسی دی جائے گی‘۔

واضح رہے کہ قبل ازیں پولیس ذرائع کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ زینب قتل کیس میں ایک شخص کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے، جبکہ مذکورہ شخص نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق گرفتار شخص زینب کا پڑوسی اور کوٹ روڈ کا رہائشی تھا تاہم ڈیوٹی افسر نے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی تھی۔

مذکورہ شخص کو زینب کیس کے شبہے میں ایک بار پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا، تاہم ابتدائی تفیش کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شخص کچھ دنوں سے غائب تھا جبکہ پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کرکے اس کے ٹیسٹ کرائے تھے اور اس سے تفتیش بھی جاری ہے۔

بعد ازاں پنجاب حکومت کے ترجمان ملک اسد خان نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ابتدائی رپورٹس میں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جو اسے ملزم قرار دیتے ہیں، تاہم حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی درست طریقے سے تفتیش کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز زینب قتل کیس میں پولیس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ ‘اصل ملزم’ کو ڈی این اے ٹیسٹ نے بے قصور ثابت کردیا تھا، جس کے بعد قاتل کی تلاش میں سرگرداں جے آئی ٹی زینب قتل کیس میں ایک مرتبہ پھر اندھیری گلی میں آ کھڑی ہوئی تھی اور اس کے پاس ملزم کا کوئی سراغ نہیں تھا۔

پولیس نے 23 سالہ عمر فاروق کو حراست میں لیا تھا جس کے بارے میں پولیس کو یقین تھا کہ وہ ہی زینب قتل کیس کا اصل ملزم ہے تاہم پیر کو آنے والی ڈی این اے رپورٹ نے عمر فاروق کو بے قصور ثابت کردیا۔

زینب کا قتل: کب کیا ہوا؟

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا تاہم ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت سے روز دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ہمراہ کیس کی سماعت کے لیے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں