Dawn News Television

اپ ڈیٹ 13 فروری 2018 05:13pm

دودھ ہم تک کیسے پہنچتا ہے؟

سرسبز کی جانب سے شاندار خاطرمدارت کا انتظام کیا گیا، جس کے بعد ہم واپس سڑک پر آ گئے۔ اب ہم کلیکشن پوائنٹ کی جانب گامزن ہیں۔

03: گگا کلیکشن پوائنٹ

صبح 11:00 بجے

تنگ سڑکوں پر سایہ فگن کالی گھٹاؤں کے نیچے ہم چک گگا میں ایک گاؤں پہنچے، جہاں باڑوں کی ایک قطار کے سامنے گگا کلیکشن پوائنٹ واقع ہے۔

پنکھوں اور دودھ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے چِلر سے آراستہ یہ پختہ عمارت آس پاس موجود چھوٹے باڑوں سے کافی ممتاز نظر آتی ہے۔

نیسلے کے دو نمائندے ہمیں دودھ کے سفر میں اس اگلی منزل کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد سہیل ایک نوجوان اور تجربہ کار شخص ہیں جنہیں دودھ کی کلیکشن اور اسے ٹھنڈا کرنے کے مرحلے (چلنگ) کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہیں۔ میاں حماد لطیف ایک تجربہ کار کلیکشن افسر ہیں جو 15 سال سے نیسلے میں کام کر رہے ہیں۔

دوسرے باڑوں سے اکھٹے کیے گئے دودھ کو چِلر میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ یہیں پر ہمیں اس کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔

500 لیٹر گنجائش اور چاندی کے رنگ والا یہ بڑا سا ٹینک پنجاب اور سندھ میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں ٹینکوں میں سے ہے جن کی گنجائش 500 سے لے کر 2000 لیٹر تک ہوتی ہے۔ معیار اور پیداوار کے حساب سے الگ الگ زمروں میں موجود سپلائرز سے دودھ اکھٹا کر کے اسے یہاں جمع کیا جاتا ہے۔

نیچے دی گئی ویڈیو میں کلیکشن پوائنٹ پر نظر ڈالیں

لطیف کلیکشن کے مرحلے سے بخوبی واقف ہیں جس کے نتیجے میں ٹنوں کے حساب سے دودھ کی فراہمی ممکن ہو پاتی ہے۔ وہ نکتہ بہ نکتہ ہمیں یہ مرحلہ سمجھاتے ہیں۔

  1. فارم مالکان گدھا گاڑیوں، سائیکلوں، یہاں تک کہ کچھ معاملات میں پیدل بھی دودھ کلیکشن پوائنٹ تک لاتے ہیں۔

  2. دودھ کا ایک اورگینو لیپٹک (حِسّی) ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس میں اس کی ہیئت، ذائقے، احساس، اور بو کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

  3. اگر یہ ٹیسٹ کلیئر ہوجائے تو پھر اس کی بناوٹ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ نیسلے پاکستان نے اس کام کے لیے ایک موبائل ایپلیکیشن ڈویلپ کر رکھی ہے جو کہ دودھ اکھٹا کرنے والے ایجنٹوں کے اسمارٹ فونز میں موجود ہے۔ یہ ایپلیکیشن فارم مالکان سے دودھ کی خریداری کا ریکارڈ رکھتی ہے اور جب ایک بار دودھ تمام ٹیسٹ اور مراحل سے گزر جائے، تو انہیں ایک تصدیقی پیغام بھیج دیا جاتا ہے۔

  4. کوئی بھی دودھ جو مسترد ہوجائے، نہیں خریدا جاتا۔ اگر جمع شدہ دودھ خراب ہوجائے، تو یہ ایک مصدقہ تیسرے فریق کی جانب سے ضائع کر دیا جاتا ہے۔

  5. ٹیسٹ کلیئر کرنے والا دودھ پھر ترسیل کے لیے ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور ریجنل سینٹر جانے والے دودھ کے ٹینکر میں بھرا جاتا ہے (ذیل میں دیے گئے انفوگرافس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کون سے دیگر ٹیسٹ کیے جاتے ہیں) اور پھر اسے شیخوپورہ میں نیسلے فیکٹری روانہ کر دیا جاتا ہے۔

ہم بھی اب وہیں جا رہے ہیں۔

04: شیخوپورہ کی ملٹی پراڈکٹ فیکٹری

دوپہر 12 بجے

ریتیلی سڑکیں پیچھے چھوڑتے ہوئے اب شیخوپورہ میں فیکٹری کی جانب ہمارا سفر ایک پختہ اور ہموار، مگر کم دلکش نظاروں والی سڑک پر ہے۔

گرمی اور بدبو کو اگر ہٹا دیں تو میں دیہی زندگی کی دھیمی رفتار اور امن و سکون چاہتی ہوں۔ اگر مجھے ایک اچھا وائی فائی کنکشن مل جائے، تو مجھے فارم چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

انہی سوچوں میں ہم شیخوپورہ میں واقع نیسلے کی ملٹی پراڈکٹ فیکٹری آ پہنچے۔

پہلا تاثر: اتنی بڑی فیکٹری؟ یہاں کئی بڑے ٹاور موجود ہیں جن میں مجھے بتایا گیا کہ دودھ جمع کیا جاتا ہے۔

نیچے دی گئی ویڈیو میں فیکٹری کی سیر کریں۔

ہمیں فوراً ہی ایک (ٹھنڈے) بورڈ روم میں لے جایا جاتا ہے جہاں ایک درمیانی عمر کے شخص ہمارا استقبال کرتے ہیں۔ یہ فیکٹری مینیجر ابرار احمد ہیں اور ان کے پاس حقائق اور اعداد و شمار کا خزانہ ہے۔

ابرار ہمیں بتاتے ہیں کہ نیسلے کی کبیروالا، ملتان میں ایک اور یو ایچ ٹی ملک فیکٹری ہے۔

زبردست۔ مگر شہباز کا 60 لیٹر دودھ کہاں ہے؟

ہمیں سفید لیب کوٹ، ہائجین کیپس، اور سائز سے بڑے جوتے پہنا کر فیکٹری مینیجر ممتاز حسین کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو ہمارے ٹوئر گائیڈ بھی ہیں اور دودھ کو آلودگی سے پاک رکھنے کے ذمہ دار بھی۔

ٹرانسپورٹ، آف لوڈنگ اور مزید ٹیسٹ

میں واپس چلچلاتی دھوپ میں آ چکی ہوں اور اپنی پہلی منزل کی جانب گامزن ہوں، یعنی وہ جگہ جہاں دودھ کے ٹینکر سے دودھ اتارا جاتا ہے۔ یہاں پر مکمل طور پر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص ٹینکر کو دھو کر اور رگڑ کر صاف کر رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ دودھ کا ٹینک کھولنے سے قبل اس کی مکمل طور پر صفائی ضروری ہے۔

اس کے بعد کئی مزید ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ (اگر آپ شمار کر رہے ہیں تو اب تک 8 ٹیسٹ ہو چکے ہیں، اور 301 ٹیسٹ مزید ہونے باقی ہیں۔)

سب سے پہلے ایک 50 منٹ طویل مرحلے میں دودھ کے سیمپل لیے جاتے ہیں اور چیک کیا جاتا ہے کہ دودھ کا درجہ حرارت درست ہے یا نہیں، اور آیا یہ درجہ حرارت وہی ہے جو کلیکشن پوائنٹ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ ٹیسٹ اس لیے ضروری ہے تاکہ دودھ کے کنٹینر میں خرابی کے امکان کو دور کیا جا سکے۔

اس کے بعد سیمپلز کو معیار کو یقینی بنانے والی ایک چھوٹی سی لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں بیکٹیریا، تازگی، اور اضافی مٹھاس کے لیے چیک کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یوریا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے تاکہ دودھ کا گاڑھا پن معلوم کیا جا سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دودھ میں کہیں ملاوٹ تو نہیں۔

پہلا گھونٹ

دودھ کی بناوٹ کو پرکھنے کے ایک دو مزید ٹیسٹس کے بعد ایک ذائقے کا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ دودھ کو ایک گلاس میں ڈالا جاتا ہے جہاں ٹیکنیشن اسے سونگھتا ہے تاکہ کسی بھی بو کا پتہ چلایا جا سکے۔ اس کے بعد وہ اس کی چکناہٹ اور ذائقے کو پرکھنے کے لیے اس کو چکھتا ہے۔

اس موقع پر میں نے فارم سے کلیکشن پوائنٹ اور پھر وہاں سے اپنے گلاس میں موجود دودھ کو پہلی بار چکھا۔ میں نے گلاس ہلایا، سونگھا، اور پھر بالکل کسی ماہر کی طرح اسے چکھا۔ مجھے بتایا گیا کہ آگے چکھنے کے مزید ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

اس کے بعد حسین ہمیں مِلک ریسیونگ یونٹ لے جاتے ہیں جہاں دودھ کے ٹینکر کو رجسٹر کیا جاتا ہے، اور ڈرائیور کو ایک کی ریڈر فراہم کیا جاتا ہے جس میں دودھ پر کیے گئے ہر ٹیسٹ کی تصدیق اور آگے بڑھنے کا اجازت نامہ موجود ہوتا ہے۔

اس کے بعد مجھے ایک اور اسٹیشن لے جایا جاتا ہے جہاں دودھ کو آف لوڈ کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پائپس کے ذریعے دودھ کو ایک انتہائی آٹومیٹک (اور بظاہر دلچسپ) نظام میں داخل کر کے دھاتی کنٹینروں والے ایک بڑے کمرے میں لے جاتا ہے جہاں پر پراڈکٹ سے کسی بھی قسم کے انسانی یا بیرونی رابطے کو ختم کر دیا جاتا ہے۔

دودھ کو ابتدائی طور پر گرم کرنے کے بعد اسے اس کی اگلی منزل پر پہنچانے سے قبل ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔

لیبارٹری کے اندر

دوپہر 12:30 بجے

مجھے ایک وسیع و عریض لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے جہاں نیسلے کے دودھ پر کیے گئے پورے 309 ٹیسٹوں کی مزید تفصیلات بتائی جاتی ہیں۔

یہ اب واضح ہے کہ کیوں نیسلے کا دودھ پاکستان میں استعمال کے لیے لائق قرار دی گئی دودھ کی صرف چند برانڈز میں سے ایک ہے۔ جب کوئی کمپنی مقامی اور بین الاقوامی سطح پر 300 سے زائد ٹیسٹ کرے تو صارف تک خراب دودھ پہنچنے کے امکانات شاید نہ ہونے کے برابر سے لے کر بالکل نہ ہونے کے درمیان ہوں؟ یہاں پر معیار کے بارے میں شک کرنے کی مزید کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

لیبارٹری میں معیار کے ٹیسٹ سے گزرنے کے بعد بالآخر دودھ کو منظور کر لیا جاتا ہے۔ یہی وہ دودھ ہوتا ہے جو میں اب دکان سے خریدوں گی۔

حسین ہمیں پیکیجنگ پلانٹ کی جانب لے جاتے ہیں جہاں معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ذائقے کا ایک اور ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اس لیے ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کہیں پیکجنگ کے بعد دودھ کے ذائقے میں فرق تو نہیں آیا۔

میں مختلف پیکجز میں سے آٹھ گھونٹ لیتی ہوں، جبکہ بیچ بیچ میں پانی بھی، تاکہ ایک سیمپل کا ذائقہ زبان سے صاف ہونے کے بعد ہی دوسرا چکھا جائے۔

پیکجنگ

دوپہر 04:00 بجے

پیکجنگ پلانٹ میں داخل ہونے کے لیے حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے انتہائی احتیاط سے ہمارے ہاتھ دھلوائے جاتے ہیں۔ اندر ایک طویل راہداری کی ابتداء میں ایک کمرہ ہے جہاں صرف مخصوص شخصیات کو داخلے کی اجازت ہے۔ حسین بتاتے ہیں کہ "یہ دودھ کا پیکجنگ سے پہلے آخری ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس کمرے میں موجود لوگوں کا دودھ کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کے حوالے سے فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔

کچھ دروازوں کے آگے وہ جگہ ہے جو اس پورے دورے میں میری سب سے پسندیدہ جگہ ہے۔ ایک بہت بڑا ہال، جہاں پر دودھ پیک ہو رہا ہے۔ 333 پیک فی منٹ کی رفتار سے ہونے والے اس مرحلے کو دیکھنا نہایت حیران کن اور ہپناٹائز کر دینے والا ہے۔

05: مکمل چکر

شام 05:00 بجے

اور یوں دودھ کی زندگی میں ایک دن کا اختتام ہوا۔ میں نے دودھ کے ساتھ 200 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ حقیقتاً مجھے لگا تھا کہ یہ دورہ بیزار کن ہوگا جیسا کہ پہلے سے طے شدہ زیادہ تر دورے ہوتے ہیں۔ مگر یہ کافی مختلف تھا۔ دودھ کا سفر نہایت حیران کن ہے: ایک چھوٹے سے فارم سے لے کر سرسبز، اور وہاں سے فیکٹری تک۔

میں نے جانا کہ ہمارے گھر میں موجود ہر دودھ کے ڈبے کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ ہم جب ایئرپورٹ واپس آ رہے تھے تو تیز بارش اور ہواؤں کے پس منظر میں دور کہیں میں کسانوں کو اپنے گھروں تک جاتا دیکھ پا رہی تھی۔

12 گھنٹوں کے اندر دودھ کا ایک اور چکر شروع ہونے والا تھا۔


رپورٹ : امر ایاز

یہ فیچر نیسلے پاکستان کے تعاون سے لکھا گیا ہے، نیسلے نے بحیثیت اسپانسر اس فیچر کے تمام اخراجات برداشت کیے

اسپانسر مواد کیا ہے؟


Read Comments