تانگے والا خیر منگدا! بھاویں ہووے حیدرآباد دا!
تانگے والا خیر منگدا، بھاویں ہووے حیدرآباد دا
ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق انسان نے بھی دنیا میں اپنی ضرورتوں کی خاطر نت نئی ایجادات کیں، انسان ابتداء سے ہی اپنی زندگی کو سہل بنانے کے لیے سوچ اور تجسس کے سمندر میں غوطہ خوری کرتے ہوئے روز بروز تخلیق اور تسخیر کی منازل طے کرتا چلا گیا۔
انسانوں نے اپنے ارتقاء کے دوران کھانا پکانے کے لیے آگ کا استعمال کیا یا پھر شکار کے لیے پتھر کے اوزاروں کا سہارا لیا، کھانا کھانے کے لیے مٹی کے برتن اور تن ڈھانپنے کے لیے جانوروں کی کھال کااستعمال کیا، ان سب میں سے گول پہیے کو ایک انقلابی ایجاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
اس ایجاد نے نقل و حرکت کا وقت محدود سے محدود تر کردیا۔ مگر حضرت انسان کو تیزی کی مزید طلب تھی چنانچہ جانوروں کی طاقت کو پہیوں سے جوڑ دیا گیا اور لیجیے جناب لگام ہاتھوں میں تھامے انسان اپنی منزلوں پر اور بھی جلدی پہنچنے کے قابل ہوگیا۔ اسی ایجاد یا سواری کی صورت آگے چل کر تانگا بنی۔
لیکن چونکہ انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت بچانا تھا لہٰذا گھوڑے کی طاقت مشینوں اور انجنوں میں ہارس پاور کی صورت منقتل کردی گئی۔ اس کے برعکس تانگا ایک ایسی سواری ہے جو آلودگی کا باعث نہیں بنتی اور سچ پوچھیں تو اس میں فطرت سے قربت نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سڑکوں کا اہم جزو سمجھے جانے والے تانگے کم سے کم تر ہوتے چلے گئے اور شہر میں تو اس سواری کا رجحان تقریباً ختم ہوچکا ہے۔