تانگے والا خیر منگدا! بھاویں ہووے حیدرآباد دا!

تانگے والا خیر منگدا، بھاویں ہووے حیدرآباد دا

نبیل ابڑو

ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق انسان نے بھی دنیا میں اپنی ضرورتوں کی خاطر نت نئی ایجادات کیں، انسان ابتداء سے ہی اپنی زندگی کو سہل بنانے کے لیے سوچ اور تجسس کے سمندر میں غوطہ خوری کرتے ہوئے روز بروز تخلیق اور تسخیر کی منازل طے کرتا چلا گیا۔

انسانوں نے اپنے ارتقاء کے دوران کھانا پکانے کے لیے آگ کا استعمال کیا یا پھر شکار کے لیے پتھر کے اوزاروں کا سہارا لیا، کھانا کھانے کے لیے مٹی کے برتن اور تن ڈھانپنے کے لیے جانوروں کی کھال کااستعمال کیا، ان سب میں سے گول پہیے کو ایک انقلابی ایجاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

اس ایجاد نے نقل و حرکت کا وقت محدود سے محدود تر کردیا۔ مگر حضرت انسان کو تیزی کی مزید طلب تھی چنانچہ جانوروں کی طاقت کو پہیوں سے جوڑ دیا گیا اور لیجیے جناب لگام ہاتھوں میں تھامے انسان اپنی منزلوں پر اور بھی جلدی پہنچنے کے قابل ہوگیا۔ اسی ایجاد یا سواری کی صورت آگے چل کر تانگا بنی۔

لیکن چونکہ انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت بچانا تھا لہٰذا گھوڑے کی طاقت مشینوں اور انجنوں میں ہارس پاور کی صورت منقتل کردی گئی۔ اس کے برعکس تانگا ایک ایسی سواری ہے جو آلودگی کا باعث نہیں بنتی اور سچ پوچھیں تو اس میں فطرت سے قربت نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سڑکوں کا اہم جزو سمجھے جانے والے تانگے کم سے کم تر ہوتے چلے گئے اور شہر میں تو اس سواری کا رجحان تقریباً ختم ہوچکا ہے۔

حیدرآباد کی سڑک پر دوڑتا ایک تانگا—تصویر نبیل ابڑو
حیدرآباد کی سڑک پر دوڑتا ایک تانگا—تصویر نبیل ابڑو

گاؤں کی سڑک پر تانگا اپنی منزل کی طرف رواں دواں—تصویر نبیل ابڑو
گاؤں کی سڑک پر تانگا اپنی منزل کی طرف رواں دواں—تصویر نبیل ابڑو

شاذ و نادر ہوچکے تانگے—تصویر نبیل ابڑو
شاذ و نادر ہوچکے تانگے—تصویر نبیل ابڑو

اپنی جلدی کی خواہش میں ہم نے ماحول دوست سواری کو ترک کردیا اور آلودگی کا باعث بننے والی دھواں اُڑاتی اور شور مچاتی گاڑیاں اور موٹریں ہماری سڑکوں کی زینت بنیں اور صاف ستھرے ماحول کے لیے مصیبت۔

وہ بھی ایک دور تھا کہ جب گھوڑے کی چاپ، چُپ چاپ گلیوں کی تارکول سڑکوں پر کانوں کو بھلی لگتی تھی، ہوا میں لہراتی چابک، لکڑی کے دو پہیے اور آگے بھاگتا ہوا گھوڑا منزلوں کے قریب لے جاتا تھا۔ کسی زمانے میں آرام دہ اور شاہی سواری تصور کی جانے والی یہ گھوڑا گاڑی اب تو شاذو نادر نظر آتی ہے۔

ایک دور تھا کہ جب گھوڑے کی چاپ، چُپ چاپ گلیوں کی تارکول سڑکوں پر کانوں کو بھلی لگتی تھی—تصویر نبیل ابڑو
ایک دور تھا کہ جب گھوڑے کی چاپ، چُپ چاپ گلیوں کی تارکول سڑکوں پر کانوں کو بھلی لگتی تھی—تصویر نبیل ابڑو

گھوڑا گاڑی کسی زمانے میں آرام دہ اور شاہی سواری تصور کی جاتی تھی—تصویر نبیل ابڑو
گھوڑا گاڑی کسی زمانے میں آرام دہ اور شاہی سواری تصور کی جاتی تھی—تصویر نبیل ابڑو

اپنی جلدی کی خواہش میں ہم نے ماحول دوست سواری کو ترک کردیا ہے—تصویر نبیل ابڑو
اپنی جلدی کی خواہش میں ہم نے ماحول دوست سواری کو ترک کردیا ہے—تصویر نبیل ابڑو

کچھ عرصے قبل دل چاہا کہ کیوں نہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کیا جائے، ایک بار پھر تانگے کی سواری کی جائے اور تانگے والوں کی زندگی کا حال پوچھا جائے۔ میں حیدرآباد کا رہائشی ہوں، لہٰذا تانگا سواری سے لُطف لینے کے لیے پھلیلی تانگا اسٹاپ آ پہنچا۔ پھلیلی کا یہ تانگا اسٹاپ انگریز دور کی ایک بھولی بسری نشانی ہے اور یہاں سے کوٹری کے گاؤں خانپور تک اب بھی چند تانگے چلتے ہیں۔ خانپور نامی اس گاؤں میں تانگوں کی تعداد صرف 8 تک محدود رہ گئی ہے جبکہ پھلیلی میں اب تو بس اِکا دُکا ہی تانگے چل رہے ہیں۔

محمد جمن 41 سال سے تانگا چلا رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ بھٹو دور سے تانگا چلے رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے والد تانگا چلايا کرتے تھے، اُن کی وفات کے بعد میں نے گھوڑے کی لگام سنبھالی اور آج تک تھامے رکھی ہے، بس تب سے یہ گھوڑا اور یہ گاڑی ہی میرے بچوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔

محمد جمن 41 سال سے تانگا چلا رہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
محمد جمن 41 سال سے تانگا چلا رہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

پھلیلی کا تانگا اسٹاپ انگریز دور کی ایک نشانی ہے—تصویر نبیل ابڑو
پھلیلی کا تانگا اسٹاپ انگریز دور کی ایک نشانی ہے—تصویر نبیل ابڑو

چند تانگے والے نسل در نسل یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
چند تانگے والے نسل در نسل یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

محمد جمن بھولے بسرے دن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب تانگا چلانا شروع کیا تب کوٹری سے خانپور تک کرایہ 12 آنے تھا، جو آج 10 روپے ہوگیا ہے۔

میں نے حیران نظروں سے اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ چاچا جمن اس مہنگائی کے دور میں اتنے پیسوں میں گزارا کیسے ممکن ہے؟ تو جواب ملا کہ، ’بس یار دال روٹی نکل آتی ہے، یہ ہوائی روزی ہے میاں، کبھی بھری میں تو کبھی بھاکر میں (کبھی کم تو کبھی زیادہ)۔‘

میں نے سڑک پر فراٹے بھرتی موٹر گاڑیوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ چاچا یہ جدید دور ہے، رکشوں، گاڑیوں اور سزوکیوں کا دور، تانگوں پر تو زیادہ تر لوگ سوار ہونا پسند ہی نہیں کرتے ہوں گے؟

جمن چاچا بڑے ہی پُراعتماد لہجے میں گویا ہوئے کہ، ’جناب بالکل جدید دور ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے یہ رکشہ وغیرہ آئے ہیں تب سے لوگوں نے تانگوں پر بیٹھنا بھی کم کردیا ہے، لیکن آج بھی ہمارے گاؤں کے لوگ تانگوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی میں تانگے کی باگیں تھامے ہوئے ہیں۔‘

ایک تانگے والا—تصویر نبیل ابڑو
ایک تانگے والا—تصویر نبیل ابڑو

مسافر کی راہ تکتا ایک تانگا—تصویر نبیل ابڑو
مسافر کی راہ تکتا ایک تانگا—تصویر نبیل ابڑو

محمد جمن کی باتیں سن کر مجھے جاں نثار اختر کا یہ شعر یاد آتا ہے

اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹادیں

کچھ درد کو کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں

10 سال پہلے تک یہی پھلیلی تانگا اسٹاپ گھوڑوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا، مگر اب تو یہاں رکشے، فورسیٹر اور سوزکیاں ہی نظر آتی ہیں۔

اخلاق احمد پھلیلی کے رہائشی ہیں اور کم و بیش 21 برسوں سے تانگوں میں سفر کررہے ہیں، اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ رکشوں کی بھرمار ہے جو منزل پر بھی جلدی پہنچا دیتے ہیں مگر میں ٹھہرا دمے کا مریض اور یہ گاڑیاں کافی دھواں چھوڑتی ہیں، جبکہ تانگے کافی ماحول دوست ہیں، نہ دھواں اور نہ موٹر کا ناقابلِ برداشت شور، اسی لیے میں تانگوں کو ترجیح دیتا ہوں جبکہ کرایہ بھی مناسب ہے اور کسی قسم کی دھکم پیل کا سامنا بھی نہیں ہوتا جیسا اکثر لوکل بسوں میں ہوتا ہے۔‘

دونوں ٹانگوں سے معذور 30 سالہ حسین علی بھی تانگا چلاتے ہیں۔ حسین علی 15 سال کی عمر سے تانگے گاڑی پر مسافروں کو ایک سے دوسری جگہ پہنچا رہے ہیں، حسین علی بتاتے ہیں کہ، ’میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں اور اس معذوری کی وجہ سے کوئی اور کام بھی نہیں کرسکتا اس لیے ٹانگا گاڑی چلا کر اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کی دوزخ بھرتا ہوں۔‘

دونوں ٹانگوں سے معذور 30 سالہ حسین علی 15 برس سے تانگا چلا رہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
دونوں ٹانگوں سے معذور 30 سالہ حسین علی 15 برس سے تانگا چلا رہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

آج بھی چند لوگ ایسے ہیں جو تانگے کی سواری کو ترجیح دیتے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
آج بھی چند لوگ ایسے ہیں جو تانگے کی سواری کو ترجیح دیتے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

حسین علی کے والد بھی تانگا چلایا کرتے تھے اور یوں یہ کام ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ جب میں نے حسین علی سے اس کی عمر پوچھی تو کہنے لگے کہ ‘خواب ادھورے رہ جانے سے آنکھیں بوڑھی ہوجاتی ہیں، دراصل میری اتنی عمر نہیں ہے جتنی دیکھنے والے کو محسوس ہوتی ہے، بس زمانے کے جھمیلوں نے وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہے، پھر بھی خدا کا شکر ہے جو اس حال میں چلا رہا ہے۔‘

مجھے توقع نہیں تھی کہ حسین علی تانگے کی باگیں تھامے اتنی گہری باتیں کرے گا۔

حسین علی یومیہ 550 سے 600 روپے کمالیتے ہیں جبکہ گھوڑی کے چارے پانی کا خرچہ تقریباً 200 روپے تک ہوجاتا ہے۔

حسین علی نے بتایا کہ، ’2 سال پہلے تک تو پھر بھی کافی سواری مل جاتی تھی لیکن اب چنگچیوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے، 2 سے 3 برس پہلے کی بات ہے کہ جب ہمارے اور آس پاس کے دیہاتوں میں کم و بیش 24 کے قریب تانگے ہوا کرتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد انگلیوں پر گنتی جتنی رہ گئی ہے، پھر بھی خدا کا لاکھ شکر ہے کہ آج بھی کچھ لوگ ہمارے تانگوں میں بیٹھتے ہیں، بس خدا سے دعا ہے کہ آئندہ بھی میرے تانگے کے پہیے چلتے رہیں اور گھر کی چکی بھی چلتی رہے، کیونکہ میں چنگچی تو چلا نہیں سکتا اور کسی اور کام کے لائق بھی نہیں۔‘

حسین علی یومیہ 550 سے 600 روپے کمالیتے ہیں جبکہ گھوڑی کے چارے پانی کا خرچہ تقریباً 200 روپے تک ہو جاتا ہے۔
حسین علی یومیہ 550 سے 600 روپے کمالیتے ہیں جبکہ گھوڑی کے چارے پانی کا خرچہ تقریباً 200 روپے تک ہو جاتا ہے۔

ج بھی کچھ لوگ ہمارے تانگوں میں بیٹھتے ہیں، بس خدا سے دعا ہے کہ آئندہ بھی میرے تانگے کے پہیے چلتے رہیں—تصویر نبیل ابڑو
ج بھی کچھ لوگ ہمارے تانگوں میں بیٹھتے ہیں، بس خدا سے دعا ہے کہ آئندہ بھی میرے تانگے کے پہیے چلتے رہیں—تصویر نبیل ابڑو

معذوری اور دشوار زندگی اوپر سے تانگا چلانے جیسا معدوم ہوتا ذریعہءِ معاش، اس سب کے باوجود بھی حسین علی ناشکری نہیں کرتے، ان کی گہری باتیں بھی اس تیز ترین دور کے شور میں شاید کسی کو سنائی نہیں دیتیں۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستانی فلمی گیت یاد آگیا جو بالکل ٹھیک لکھا گیا ہے کہ ’تانگے والا خیر منگدا، تانگہ لہور دا ہووے تے بھاویں جھنگ دا‘ یا پھر حیدرآباد ہی کا کیوں نہ ہو۔

جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں اُس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ کچھ عرصے میں یہاں ایک بھی تانگا نظر نہیں آئے گا اور فکرِ معاش شاید ان دیگر تانگے والوں کو چنگچیاں چلانے یا روزگار کے لیے دیگر کام کرنے پر مجبور کردے گا، جس سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوگا لیکن سوچتا ہوں کہ حسین علی کا متبادل روزگار کیا ہوگا؟


لکھاری سندھ یونیورسٹی کے شعبہء میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز کے طالبعلم ہیں اور سیاست و فلسفے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔