پاکستان

وزیراعظم کی چیف جسٹس کو انصاف کی فراہمی میں تعاون کی یقین دہانی

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے دروازے پر وزیراعظم کا استقبال کیا اور قریب 2 گھنٹے تک ملاقات جاری رہی۔

وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے درمیان سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے چیمبر میں ملاقات ہوئی جہاں وزیراعظم نے چیف جسٹس کو انصاف کی فراہمی میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ملاقات وزیراعظم کی درخواست پر کی گئی جس کے لیے اٹارنی جنرل کے ذریعے پیغام پہنچایا گیا تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی جہاں وزیراعظم نے حکومت کی جانب سے انصاف کی فراہمی میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے عدالتی نظام کی بہتری میں معاونت فراہم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔

اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے چیف جسٹس کے تعلیم اور صحت کے شعبے بالخصوص نجی میڈیکل کالجوں اور پینے کے صاف پانی کے حوالے سے کوششوں میں حکومتی تعاون اور چیف جسٹس کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کروائی۔

مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے ریونیو کورٹس میں ایف بی آر کو درپیش مشکلات کے حوالے سے آگاہ کیا جس پر چیف جسٹس نے ایف بی آر کو درپیش مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی ہے۔

ملاقات کے دوران وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے پانی کی منصوبہ بندی کی منظوری سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ عدلیہ اپنے آئینی فرائض قانون کے مطابق بلا خوف وخطر آزادانہ اور صاف وشفاف انداز میں ادا کرتی رہے گی۔

قبل ازیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بغیر پروٹوکول سپریم کورٹ پہنچے تو چیف جسٹس نے دروازے پر ان کا استقبال کیا جس کے بعد ملاقات شروع ہوئی۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔

'ملاقات کا وقت مناسب نہیں'

دوسری جانب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے جیو نیوز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ملاقات کا وقت مناسب نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات زیرسماعت اور شریف خاندان کے مقدمات سمیت دیگر کئی معاملات عدالتوں میں ہیں ایسے میں اچانک ملاقات سے قیاس آرائیاں جنم لیں گی۔

یاد رہے کہ 20 فروری کو قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ آئین نے تمام اداروں کے اختیارات اور دائرہ کار کے بارے میں بتا دیا ہے اور انھیں اسی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے کیونکہ قومی اداروں کے درمیان کسی قسم کا تنازع ملک کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ اس تنازع سے بچنے کے لیے ایوان کو ایک بحث کا انعقاد کرنا چاہیے اور یہ بحث کوئی جانب دار اور پارٹی کی بحث نہیں ہو بلکہ یہ ایوان کی بحث ہونی چاہیے۔

ایوان سے خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ 'یہ کسی ادارے کے خلاف تنقید نہیں ہے بلکہ میں آپ کے سامنے حقائق پیش کر رہا ہوں'۔

قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی تجویز پر اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مثبت ردعمل دکھایا گیا تھا اور سب اس بات پر راضی ہوئے تھے کہ ریاستی اداروں کے کردار اور اختیارات کے معاملے پر پارلیمانی بحث کی ضرورت ہے، تاہم تمام جماعتوں نے اس معاملے پر حکومتی جماعت کے خلوص پر تحفظات کا اظہار کیا اور الزام لگایا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا اصل مقصد صرف نواز شریف کے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے ہے۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کی جانب سے دی گئی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس طرح کی بحث بہت پہلے ہونی چاہیے تھی، تاہم مسلم لیگ (ن) کی جماعت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر 20 ویں آئینی ترمیم میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت نہیں کی تھی۔

انھوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے کوئی قانون سازی کی جاتی ہے جو ایک فرد کے بجائے ملکی مفادات کے لیے ہو تو اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔