وسیع رقبے پر پانی خشک ہوجانے بعد نمک کے ڈھیر زمین کو بنجر کرنے کے علاوہ مٹی کے ساتھ نمک کے طوفانوں کا باعث بن رہے ہیں جس سے تبریز اور اطراف کی 50 لاکھ سے زائد آبادی کو آنکھوں، جلد اور پھیپڑوں کے امراض کا سامنا ہے۔ کہیں کہیں بچ جانے والے پانی کے جوہڑوں میں الجی اور بیکٹیریا کی بہتات کے باعث پانی کا رنگ نارنجی یا سرخ ہوچکا ہے۔ کسی دور میں تبریز سیاحت کے لیے آنے والے افراد ارمیا جھیل میں غسل کو فرض سمجھتے تھے، جسے غسلِ صحت بھی کہا جاتا تھا مگر اب سیاح تو درکنار مقامی آبادی بھی اس کے گدلے اور بدبو دار پانی سے دور بھاگتی ہے۔
اس جھیل کی تباہی میں بنیادی کردار بلاشبہ گلوبل وارمنگ کا رہا ہے مگر اس کے علاوہ اس میں انسانی لاپرواہی بھی کارفرما ہے۔ ایک طرف جھیل سے منصوبہ بندی کے بغیر ہزاروں کی تعداد میں کنویں نکالے گئے تو دوسری جانب اسے پانی فراہم کرنے والے 13 دریاؤں پر ڈیمز بنادیے گئے جن سے پانی کی ترسیل میں کمی آئی۔ اس کے علاوہ اطراف کی آبادی نے اپنی فصلوں کو کاشت کرنے کے لیے پمپ کے ذریعے بے دریغ پانی نکالا جس کے بعد دنیا بھر میں اپنے نمکین پانی کے وجہ سے شہرت رکھنے والی یہ خوبصورت جھیل بتدریج تباہ ہوتی جا رہی ہے۔
مگر ایران کی حکومت اس قدرتی تحفے کو ہرگز کھونا نہیں چاہتی، لہٰذا گزشتہ برسوں میں اس کے بچاؤ اور پانی کی وافر اور فوری فراہمی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے گئے، جن میں ڈیموں سے پانی کی فراہمی کے علاوہ تبریز اور اطراف میں ذرائع آبپاشی کو بہتر بنانے کی کوششیں شامل ہیں تاکہ جھیل میں زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے، امکان ہے کہ ان مؤثر اقدامات کے بعد ارمیا جھیل کو کسی حد تک پہلے کی حالت میں واپس لایا جاسکے گا، مگر چند ممالک میں کچھ ایسی بد قسمت جھیلیں بھی ہیں جہاں کی حکومتیں ابھی تک ان کی حفاظت سے یکسر غافل ہیں۔
پڑھیے: کینجھر: رومان، روزگار اور زندگی کی جھیل
انہی میں ایک نائیجیریا کی ’چاڈ جھیل‘ ہے جو کبھی بحیرۂ کیسپین جتنی وسیع تھی مگر اب زبردست حد تک سکڑ چکی ہے۔ گزشتہ برسوں میں شدید گرمی اور بارشوں کی قلت کے باعث اس کا 95 فیصد پانی خشک ہوچکا ہے۔ کسی زمانے میں 30 سے 40 فٹ گہری یہ جھیل 4 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر مشتمل تھی اور اس کے اطراف موجود سبزہ زار خوش کن منظر پیش کیا کرتا تھا مگر 1960ء سے یہاں مسلسل پانی میں کمی دیکھی جارہی ہے اور فی الوقت یہ سکڑ کر محض 520 مربع میل تک محدود رہ گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر خشک سالی پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات نہیں کیے گئے تو جھیل چاڈ ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے گی۔
کسی دور میں تنزانیہ کی ’تنگا نائیکا‘ جھیل کا شمار افریقہ کی بڑی جھیلوں میں کیا جاتا تھا جو صدیوں سے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہونے کے باعث ہر دور میں سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اگرچہ یہاں پانی کی سطح میں کمی 18ویں صدی سے دیکھی جارہی ہے مگر 19 ویں صدی میں موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے گلوبل وارمنگ کے باعث بارشوں میں مسلسل کمی ہوتی گئی، جس کے بعد جھیل کو دریائے کانگو اور دریائے لوکنگا سے پانی فراہم کیا جانے لگا، مگر گزشتہ ایک دہائی سے ان دریاؤں میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے اور اگلے چند برسوں میں دنیا ایک اور تاریخی جھیل سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گی۔
افریقہ ہو ایشیاء ہو یا پھر یورپ، دنیا بھر میں تیزی سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے، نہ صرف جھیلیں بلکہ دریا، ندی نالے اور آبشاریں بھی اسی رفتار سے خشک ہوکر اپنا وجود کھوتی جارہی ہیں، جبکہ سمندروں پر بھی گلوبل وارمنگ کی بدولت عملِ تبخیر میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جو ایک طرف دنیا بھر میں موسمیاتی بگاڑ، بے وقت کے سمندری وبرفانی طوفانوں کا سبب بن کر کئی کئی ماہ تک نظامِ زندگی مفلوج کرنے کا سبب بن رہا ہے تو دوسری جانب دنیا کے کئی خطوں کو خشک سالی کا سامنا ہے۔
انسان نے ٹیکنولوجی کی اندھا دھند تقلید اور اپنی زندگیوں کو سہل بنانے کے جنون میں اس کرۂ ارض کے قدرتی نظام کو کچھ ایسے نقصان بھی پہنچائے ہیں جن کی تلافی اب شاید ممکن نہیں رہی اور لامحالہ ہماری یہ زمین ایک ایسے آتشی گولے میں تبدیل ہوگئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر ہر شے کو تباہ کردیگا۔ آئیے اس ’ارتھ ڈے‘ پر یہ عہد کریں کہ خلاؤں پر کمندیں ڈالنے کے ساتھ ہمیں اپنی اس پیاری زمین کے قدرتی نظام کو بحال کرنے کے لیے اس کی بقا کی جنگ بھی لڑنی ہے کیونکہ ہماری زندگی اسی کے دم سے ہے۔