اپنے پرندوں کی منتظر ہالیجی جھیل

اپنے پرندوں کی منتظر ہالیجی جھیل

ابوبکر شیخ

کراچی سے ٹھٹھہ جاتے ہوئے گھارو سے آگے شمال کی طرف ایک سڑک نکلتی ہے۔ اس پر آپ اگر چلے جائیں تو راستے کے کنارے گھاس پھوس کی جھونپڑیاں آپ کو دیکھنے کے لیے مل جائیں گی، اور ان جھونپڑیوں کے کچے آنگنوں میں آپ کو عورتیں کام کرتے ہوئے بھی نظر آجائیں گی۔

میں کیونکہ صبح کے دس بجے اس سڑک پر سے ہچکولے کھاتے گزر رہا تھا تو عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ باتیں کیا ہوں گی شب و روز کے ملے درد ہوں گے جو آپس میں بانٹ رہی ہوں گی۔ شاید اس لیے کہ درد بانٹنے سے کم ہوتے ہیں۔

راستے کے دونوں طرف کوئی ہریالی نہیں تھی، بس شوریدہ بے رنگ زمین تھی جو دور تک بچھی ہوئی تھی۔ گاڑی چلتی کم اور ہچکولے زیادہ کھاتی۔ پھر سامنے ایک پُل نظر آیا اور پُل سے پہلے ایک آدمی نظر آیا جس نے ہمیں رُکنے کا اشارہ کیا۔

ہم نے اسے ہماری منزل کے بارے میں بتایا تو اُس نے کہا کہ "یہ سامنے جو پُل نظر آ رہا ہے، اُس پر سے مت جائیے گا۔"

"کیوں بھائی۔ کیوں نہ جائیں پُل سے؟"

"اسلئے نہ جائیں کہ پُل ٹوٹا ہوا ہے۔"

"اس ندی کا کیا نام ہے جس پر یہ اتنا بڑا اور ناکارہ پُل بنا ہوا ہے۔؟"

"نہیں یہ ندی نہیں ہے، سیم نالہ ہے آر۔بی۔او۔ڈی کا، پتہ نہیں کہیں دُور سے بہتا ہوا آتا ہے،" اُس نے شمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور سڑک سے نیچے اُتر گئے۔

نالے سے ہلکا زرد پانی بڑی سست رفتاری سے مغرب کی طرف سمندر کی جانب سفر کر رہا تھا، لیکن ہم شمال کی طرف چل پڑے۔ مچھیروں کی کچھ کچی بستیاں تھیں جو راستے کے دونوں کناروں پر تھیں اور بچے گاؤں کے آنگن میں کھیلتے۔ پھر اچانک درخت گھنے ہونے لگے اور ایک انتباہی بورڈ کے ساتھ سڑک کو بانس کے لکڑے سے بند کر کے رکھا تھا۔

ہم نے تعارف کروایا اور راستہ کھول دیا گیا۔ آدھے کلومیٹر کے فاصلے کے بعد آپ جیسے ایک ہلکی چڑھائی سی چڑھتے ہیں تو سامنے 'ہالیجی جھیل' ہے جو کسی بے رنگ تصویر کی طرح پھیکی پھیکی اور خاموش سی نظر آتی ہے۔

جھیل تک لے جاتا کچا راستہ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
جھیل تک لے جاتا کچا راستہ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
جھیل ایک بے رنگ تصویر کی طرح لگتی ہے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
جھیل ایک بے رنگ تصویر کی طرح لگتی ہے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ

دُور دور تک ایک پانی کی ایک چادر سی بچھی ہے۔ کیونکہ ہوا نہیں ہے اس لیے پانی کسی آئینہ کی طرح نظر آتا ہے۔ یہ خوبصورت سی جھیل 16 اسکوائر کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس چھوٹی سی قدرتی جھیل کے نصیب دوسری جنگ عظیم کے دوران بدلے۔

دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر 1939ء میں شروع ہوئی اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی جان لینے کے بعد 14 آگست 1945ء میں ختم ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کی طرح اس دوسری جنگ میں بھی کراچی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا۔ لوگوں کے بڑھنے سے کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ پانی کی بھی قلت بھی پیدا ہوئی۔

پانی کی اس قلت کو دور کرنے کے لیے اس جھیل کو چُنا گیا جو برساتی پانی کی ایک چھوٹی سی قُدرتی جھیل تھی۔ اس کی پانی رکھنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اس کو کھود کر بڑا کیا گیا اور چاروں طرف سے بند باندھے گئے۔ پانی کے لیے دریائے سندھ سے فیڈر کینال نکالا گیا جو اس جھیل کو پانی فراہم کرتا۔ یہ منصوبہ دو برسوں میں مکمل ہوا۔

1945ء میں اس جھیل سے کراچی کو پانی دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں سے پانی کارساز کے نزدیک تالابوں میں جمع ہوتا اور پھر وہاں سے کراچی کو سپلائی کیا جاتا تھا۔

یہ ہے وہ مختصر سی کہانی جس کی وجہ سے اس جھیل کے نصیب بدلے۔ فرنگی کیسا بھی تھا مگر اُس نے جو بھی کام کیا وہ اپنا سمجھ کر کیا۔ اُس کی سوچ برسوں تک نہیں صدیوں تک کی تھی۔ فرنگی کا ذکر پھر کبھی۔ مگر اس وقت ذکر ہالیجی جھیل کا جس کو وقت نے وسعتیں بخش دیں۔ اور پھر جب اچھے دن آتے ہیں تو آتے چلے جاتے ہیں۔

کنارے پر موجود برگد کے اداس پیڑ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
کنارے پر موجود برگد کے اداس پیڑ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
کناروں پر موجود پھوس اور سرکنڈے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
کناروں پر موجود پھوس اور سرکنڈے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ

اس کی گوناگوں تنوع دیکھ کر 1971ء میں گیم ریزرو بنایا گیا اور 1976ء میں وائلڈ لائف سینکچری بنایا گیا۔ اسی برس رامسر کنوینشن کے تحت اسے محفوظ آب گاہ کا درجہ بھی دیا گیا۔ 70ء کی دہائی تک موسم سرما میں موسمی ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد 60 ہزار سے ایک لاکھ تک رہی۔ 1988 سے 1990ء تک یہاں پرندوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد رکارڈ کی گئی۔

1991ء سے 2002ء تک طیور شماری کے لیے کیے گئے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کا تناسب تقریباً پچاس ہزار کے قریب رہا۔ ان ہجرت کر کے آنے والے پرندوں میں خاص طور پر لق لق، لمبی چونچ والے چہے، مرغابیاں اور دوسرے پرندے شامل ہوتے، اور کبھی کبھار حواصل (پلیکن) بھی اپنے لمبے سفید پروں کو پھیلائے آجاتے۔ یہاں مہمان اور مقامی پرندوں کی تقریباً دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں۔

یہ وہ خوبصورت دن تھے جب ہالیجی کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے ہر برس ہزاروں لوگ آتے تھے۔ 28 برس پہلے میں بھی آیا تھا۔ اس وقت یہ یقیناً ایک خوبصورت جھیل تھی، ہری بھری، صاف ستھرے کنارے، ایسا لگتا تھا جیسے نیلےاور صاف پانی کا پیالہ بھرا ہوا ہے۔ لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ آرہے ہیں۔ ایک میلے کا سا سماں لگا رہتا۔

مگر پھر وقت بدلا اور کمال کے آنگن میں زوال کے بیج نے جڑ پکڑ لی۔ اس زوال کی ابتدا کے متعلق ماحولیات کے ماہر ڈاکٹر نجم خورشید کے یہ الفاظ ہمیں سب کچھ بتا دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں: "ہالیجی کا مسئلہ تازہ اور صاف پانی کی فراہمی کا ہے، جب سے کراچی کو ہالیجی کے بجائے کینجھر سے براہ راست پانی کی فراہمی شروع ہوئی ہے، تب سے ہالیجی کو تازہ پانی کی فراہمی موقوف کر دی گئی ہے، جس کا ٹھہرا ہوا پانی آلودہ ہو چکا ہے، جو پرندوں کے لیے سازگار نہیں۔

"پاکستان میں تحفظِ ماحول کے لیے جھیلوں کو تازہ پانی کی فراہمی کے لیے تقسیمِ آب میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ڈاکٹر نجم خورشید کے مطابق یہ مسئلہ ملک گیر سطح پر آب گاہوں کے تحفظ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔"

جھیل میں کوٹس کے علاوہ کئی اقسام کے پرندے دکھائی دیتے ہیں۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
جھیل میں کوٹس کے علاوہ کئی اقسام کے پرندے دکھائی دیتے ہیں۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ

پھر کچھ عرصہ کے لیے یعنی 2009 میں اس حکومت سندھ کی نظر کرم ہوئی اور جھیل میں تازہ پانی چھوڑا گیا۔ میں نے مقامی صحافی غلام حسین خواجہ سے اس حوالے سے بات کی تو اُنہوں نے بتایا: "ہاں اسی برس کچھ عرصہ کے لیے 'جام برانچ' سے پانی چھوڑا گیا تھا جو اپر پنیاری سی نکلتی ہے۔ مگر جب تک پانی کے اخراج کا کوئی راستہ نہیں ہوگا تو یہ پانی چھوڑنا جھیل کو کوئی زیادہ زندگی نہیں دے سکے گا۔"

میں نے اس ویران ہوتی ہوئی جھیل ایک چکر کا لگایا۔ پیپل اور برگد کے پیڑ ہیں جو کناروں پر کھڑے ہیں اور آپ کو اپنی معصوم اور دُکھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ انسان، درخت، جھاڑیوں، چرند پرند کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ آپ سے پیار مانگتے ہیں، شفقت مانگتے ہیں، اور یہ اگر ان کو مل جائیں تو یہ مہک اُٹھتے ہیں۔

اگر آپ کی آنکھوں اور زبان سے رال نہیں ٹپکتی تو پرندے آپ سے دور نہیں بھاگیں گے۔ اگر آپ کے ہاتھ میں اور ذہن میں ان کے لیے محبت ہے تو وہ آپ سے بھی محبت کریں گے۔ مگر مجھے یہاں محبت کی کوئی جل ککڑی نظر نہیں آئی۔ درخت کٹ رہے ہیں۔ جو بڑے ہوگئے ہیں اور جن کو کاٹا نہیں جا سکتا ہے، اُن پر ایسے ہی کلہاڑیاں چلی ہوئی ہیں۔ خاردار جھاڑیاں ہیں جو جھیل کے ان پشتوں پر بکھری پڑی ہیں۔

جھیل کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے کے لیے آٹھ سے زیادہ میں نے وہ بئنچ اور لوکیشن دیکھیں جو اب ویران پڑی ہیں۔ خاردار جھاڑیاں ہیں جو ان جگہوں پر اُگ آئی ہیں اور جہاں لوگوں کے قہقہے گونجتے تھے وہاں اب ان جھاڑیوں کے ساتھ گہری خاموشی کی قلمیں اُگتی ہیں۔ یہ اپنے اندر کا درد سُنائیں بھی تو کس کو؟ درد کا حال سُننے کے لیے کوئی محرم راز بھی تو ہو، پر یہاں تو جہاں تک نظر جاتی ہے ایک قحط پڑا ہوا ہے۔

پانی کے کناروں پر کہیں کہیں 'پھوس' (reed) کے جھنڈ ہیں جن میں مقامی جنگلی پرندے جیسے، گرے ہیرون، پونڈ ہیرون، جل ککڑی، جنگل کرو اور کنگ فشر کی بھی کچھ نسلیں آپ کو مل جائیں گی۔ اب 'جینا یہاں، مرنا یہاں، اس کے سوا جانا کہاں' کے مصداق یہاں رہنا ان پرندوں کی مجبوری ٹھہری، جائیں بھی تو کہاں؟

— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
خالی بینچ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
خالی بینچ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
کبھی ان کناروں پر لوگوں کا رش ہوا کرتا تھا۔ آج یہاں کام کرنے والوں کے علاوہ کوئی گھومنے نہیں آتا۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
کبھی ان کناروں پر لوگوں کا رش ہوا کرتا تھا۔ آج یہاں کام کرنے والوں کے علاوہ کوئی گھومنے نہیں آتا۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ

پھر کچھ 'آڑیوں' (Coots) کے بھی جھنڈ نظر آئے جو پیٹ بھرنے کے لیے پانی میں چونچ کم مارتیں اور کناروں کی طرف زیادہ دیکھتیں کہ کہیں سے موت تو نہیں آ رہی۔ چلتے چلتے مجھے ایک دو اُلو بھی نظر آئے جن میں سے ایک یقیناً ایگل آؤل ہی تھا۔ پھر کناروں پر کھڑے کچھ سرکنڈے بھی ملے۔ میں نے زندگی میں اتنے بے رنگ، بیمار اور زرد پڑتے ہوئے سرکنڈے کبھی نہیں دیکھے۔

کہتے ہیں کہ، سرکنڈے پانی کے کناروں کی علامت ہیں۔ یہ نہروں اور جھیلوں کے کنارے اُگتے ہیں جہاں میٹھے پانی کی روانی اور فراوانی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جھیلوں اور سرکنڈوں کا ساتھ ہزاروں سالوں کا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ جس طرح ریت اور زقوم کے پودے کو الگ نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح جھیل کے کناروں سے آپ سرکنڈوں کو الگ نہیں کر سکتے۔ یہاں بھی سرکنڈے الگ نہیں تھے، بس ناراض، مایوس اور بیمار تھے۔ محبتوں کا قحط تھا شاید۔

پھر گھومتا گھامتا میں جب جھیل کے مرکزی آفس کے سامنے بنے چھوٹے سے گارڈن میں آیا تو یہاں بھی حالت کوئی اچھی نہیں تھی۔ پانی کا ایک گندا تالاب تھا۔ بڑی مشکل کے بعد آخری کونے میں ہمیں ایک مگرمچھ نظر آیا۔ ہمیں دیکھ کر پتہ نہیں کیا سوچتا ہوگا۔ مگر جو بھی سوچتا ہوگا وہ یقیناً اچھا نہیں ہوگا۔

پھر ایک قفس میں ایک دو بطخیں نظر آئیں۔ یہاں بھی حالت بُری تھی۔ کتنا عجیب ہے کہ قریب میں وسیع جھیل ہے اور اس کے کنارے ایک پنجرے میں چند اُڑنے والی بطخیں قید ہیں۔ پھر شیشے کی بنی ایک چار دیواری میں مگرمچھ کا نوخیز تو نہیں البتہ نوعمر بچہ بڑے مزے سے دھوپ سینک رہا تھا۔ میں جب تک رہا تب تک وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ بڑا ہی بے ذوق قسم کا بچہ تھا۔ تھوڑا چل کے دکھا دیتا تو کیا بگڑ جاتا۔

لوگوں کی تفریح کے لیے قائم ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اب کھنڈر بن چکا ہے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
لوگوں کی تفریح کے لیے قائم ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اب کھنڈر بن چکا ہے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
پانی سے چند میٹر کے فاصلے پر بطخوں کو قید رکھا گیا ہے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
پانی سے چند میٹر کے فاصلے پر بطخوں کو قید رکھا گیا ہے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
دھوپ سینکتا ہوا مگرمچھ کا بچہ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
دھوپ سینکتا ہوا مگرمچھ کا بچہ۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ

یہاں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے انچارج فضل شاہ صاحب ہیں۔ ان سے جب میں نے اس جھیل کی بربادی کے متعلق پوچھا تو جواب ملا: "یہ صحیح بات ہے کہ یہاں کا بنیادی مسئلہ پانی کا ہے۔ پانی آتا رہے اور اُس کا اخراج مسلسل ہوتا رہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو اب اس جھیل کے سمجھیں کہ دن گنے جا چکے ہیں۔"

فضل شاہ نے جس طرح 'اب' لفظ پر زور دیا وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے جب 'اب' کا فلسفہ سمجھانے کی گذارش کی تو جو جواب آیا وہ مایوس کرنے والا تھا۔ "واپڈا جو رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین بنا رہی ہے اُس کا نالہ اس جھیل کے مشرق سے بہتا ہے۔ اور اس نالے سے جو کثیف پانی بہے گا اُس کا پی پی ایم (پارٹس پر ملین) بارہ ہزار سے بھی زیادہ ہونے کی اُمید ہے (پینے کے پانی کا پی پی ایم 500 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے)۔ اس نالہ سے یہاں کی زیرِ زمین پانی کی سطح تو بڑھنی ہی ہے، اگر ہالیجی میں پانی آنے جانے کا سلسلہ شروع نہ ہوا تو اس جھیل کے دن گنے جا چکے۔"

فضل شاہ کی بات حقیقت کے قریب تر تھی۔ کیونکہ ہمارے پاس لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) کا تجربہ موجود ہے۔ یہ جہاں جہاں سے گزری چھوٹی بڑی جھیلوں، جنگلی حیات اور ماحولیات کو روندتی چلی گئی۔ نہ جانے کتنی چھوٹی بڑی جھیلیں تھیں جن کو ایل بی او ڈی نے برباد کر دیا اور اب آر بی او ڈی کا تجربہ اس طرف دہرایا جا رہا ہے۔

کناروں پر موجود درخت یا بانجھ ہوتے جا رہے ہیں یا کاٹے جا رہے ہیں۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
کناروں پر موجود درخت یا بانجھ ہوتے جا رہے ہیں یا کاٹے جا رہے ہیں۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
مگرمچھ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے گندے پانی ہی میں رکھا جائے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ
مگرمچھ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے گندے پانی ہی میں رکھا جائے۔— تصویر بشکریہ ابوبکر شیخ

اس حوالے سے جب میں نے ٹھٹھہ کے سماجی کارکن اوبھایو خشک سے بات کی تو جو جواب آیا اُس میں مجھے اُمید کی لو نظر آئی۔ "آپ کا کہنا بجا ہے کہ ہمیں ایسی فطری خوبصورتی کو بچانا چاہیے، اور یہ بھی بالکل ٹھیک کہا آپ نے کہ ہالیجی اُس لکیر کے قریب سے قریب ہوتی جارہی ہے جہاں موت کی حدود کی ابتدا ہوتی ہے، مگر جہاں تک مجھے پتہ ہے کہ یہ جو کراچی کو پینے کے پانی کے لیے 'کے فور' منصوبہ ہے، اس منصوبے میں اس جھیل کو ایک ذخیرے کی حیثیت حاصل ہوگی اور ہالیجی ایک دفعہ پھر بحال ہوجائے گی۔"

اگر خشک صاحب کی بات درست ہے تو اس جھیل کا آنے والا وقت بھی درست ہوگا۔ ہمارے یہاں بہت کم ایسی جھیلیں ہیں جن کے نصیب اچھے ہیں، ورنہ جب کمال پر زوال آتا ہے تو پھر زوال کا موسم صدیوں تک پھیل جاتا ہے۔ اگر ہالیجی پر زوال کے بعد پھر کمال آتا ہے تو یہ یقیناً کمال ہی ہوگا۔

میں نے ایک ہلکی مُسکان سے جھیل کی طرف دیکھا۔ مجھے یقین تھا کہ جھیل بھی پانی کی گہرائیوں میں مسکائی ہوگی۔ اچھے دن کسے اچھے نہیں لگتے۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔