سرکاری ریکارڈ کے تحفظ کیلئے نیب کی سیکیورٹی پالیسی وضع
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے اپنے احاطے سے سرکاری ریکارڈ چوری کرنے کی دوسری کوشش ناکام بنانے کے بعد رازداری اور سیکیورٹی پالیسی ( ایس ایس پی ) وضع کردی۔
اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حال ہی میں بیورو کے ایک عہدیدار کو اپنے ساتھ سرکاری دستاویزات لے جاتے ہوئے پکڑا گیا جبکہ یہ دوسرا واقعہ ہے کہ نیب حکام کی جانب سے خفیہ دستاویزات لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔
اس حوالے سے جب نیب حکام سے رابطہ کیا گیا اور حالیہ چوری کی کوشش کے بارے میں تصدیق کی گئی تو انہوں نے مکمل تحقیقات تک اس شخص کا نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔
مزید پڑھیں: نیب کی وزارتِ داخلہ سے نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 7 مئی کو سیکیورٹی گارڈ نے بیورو افسر کی جانب سے اہم دستاویزات چوری کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ نئی ایس ایس پی کے تحت بیورو کی جانب سے اپنے حکام اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے ہیں اور نیب حکام کے ساتھ ساتھ ملاقات کرنے والوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے گی۔
دوسری جانب نیب کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہنا تھا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں سرکاری دستاویزات کی رازداری اور سیکیورٹی کے لیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
انہوں نے تمام انٹیلیجنس سیل کو ہدایت کی کہ وہ سرکاری ریکارڈ کا تحفظ یقینی بنائیں اور اسٹاف پر کڑی نظر رکھیں اور ریکارڈ کسی نجی یا غیر متعلقہ شخص تک نہ پہنچ پائے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کا 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ
چیئرمین نیب نے ہدایت کی کہ’ ملاقاتیں کرنے والوں، درخواست گزار اور نیب کے اسٹاف کی سیکیورٹی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ صرف احتساب عدالت میں پیش کرنے کے لیے سرکاری دستاویزات کو ہیڈکوارٹر اور بیوروز سے باہر لے جایا جائے، کیونکہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص تک کوئی بھی معلومات کی فراہمی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گی۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے حکم دیا گیا کہ تمام آنے اور جانے والی فائلز کا مکمل ریکارڈ مرتب کیا جائے اور جانے والے دستاویزات کے بارے میں رجسٹر میں درج کیا جائے۔
ذرائع کی جانب سے کہا گیا کہ نئی ایس ایس پی کے تحت نیب کے ہر افسر کی کارکردگی کو ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے گا اور کسی لاپرواہی یا کیسز میں تاخیر کی صورت میں آفیسر کو چیئرمین کے سامنے وضاحت دینی ہوگی۔
یہ خبر 06 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی