حکومتی منصوبوں کے علاوہ وہ اقدام جن سے قدرتی وباؤں کو روکا جاسکے
انسان نے اپنے طرزِ زندگی کو آرام دہ اور سہل بنانے کے جنون میں اس کرہ ارض کے قدرتی نظام میں کچھ اس طرح بگاڑ پیدا کیا ہے کہ فی الوقت دنیا کا ہر خطہ قدرتی آفات اور موسمی تبدیلیوں کی زد پر ہے۔
اس وقت یورپ، امریکا، ایشیاء اور افریقہ کے متعدد ممالک کو تاریخ کے گرم ترین موسم گرما کا سامنا ہے اور گلوبل وارمنگ کی بدولت بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے یہاں نظامِ زندگی مفلوج کیا ہوا ہے، ساتھ ہی دنیا بھر میں بلند ترین درجہ حرارت کے باعث پانی کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے اور ایک وسیع علاقے کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔
دنیا بھر میں موسموں کے بدلتے ہوئے مزاج کے باعث اب کسی بھی وقت کوئی غیر متوقع صورتحال رونما ہونا حیران کن کام نہیں رہا۔ ساتھ ہی رواں برس سے ان موسمی تغیرات میں مزید شدت آگئی ہے۔ رواں برس کی پہلی سہہ ماہی میں برطانیہ اور یورپ کو تاریخ کے بدترین برفانی طوفان کا سامنا کرنا پڑا جو نہ صرف معمول کے برخلاف تھا بلکہ اس کی شدت بھی ماضی کے طوفانوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔
اسی طرح جولائی سے ستمبر تک متعدد امریکی ریاستیں سمندری طوفانوں کی زد پر ہوں گی اور ان طوفانوں کی شدت پچھلے برس کے ہریکن، ہاروے اور ارما سے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ 50 لاکھ افراد کو شدید بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔
دنیا بھر میں ان موسمی تبدیلیوں یا ان کے باعث آنے والی قدرتی آفات میں سب سے زیادہ جانی نقصان وبائی امراض پھوٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے جن میں مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں جیسے ڈ ینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس قابل ذکر ہیں۔
ان میں ڈینگی وائرس سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے کیوں کہ یہ خشک سالی اور شدید بارشوں دونوں صورتوں میں بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور نہ صرف ایشیاء و افریقہ کے پسماندہ ممالک میں اس وبا کے باعث کافی جانی نقصان ہوچکا ہے بلکہ یورپ اور امریکی ریاستیں بھی اب اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں دیگر ممالک کی طرح کریبیئن اور ملحقہ علاقوں کو بھی ڈینگی اور چکن گونیا کے شدید حملوں کا سامنا رہا ۔
واضح رہے کہ اس خطے کو ال نینو کے اثرات کے باعث کئی سالوں سے شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ ال نینو، بحرالکاہل کے پانیوں میں غیر معمولی درجہ حرارت کے اضافے کو کہا جاتا ہے۔ یہ عمل اس وقت رونما ہوتا ہے جب سمندر کا پانی آخری حد تک گرم ہوکر بہت زیادہ توانائی ماحول میں خارج کرکے دنیا بھر میں موسمی بگاڑ لاتا ہے۔ یہ ہواؤں کا رخ پلٹ کر، بادل اور طوفان بادو باراں کے سسٹم مشرق کی طرف منتقل کردیتا ہے جس سے وہاں طوفانوں کی شرح بڑھ جاتی ہے جبکہ مغربی علاقے بارشوں کی قلت کے باعث خشک سالی کی زد پر رہتے ہیں۔
کریبیئن کی طرح دیگر علاقوں میں بھی کئی برس کی خشک سالی کے دوران لوگ اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے پانی جوہڑوں، تالابوں یا پھر گھروں میں ٹنکی وغیرہ میں ذخیرہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ذخیرہ شدہ یہ پانی بہت جلد بدبودار اور جراثیم زدہ ہوجاتا ہے اور مچھروں کی افزائش نسل کا باعث بنتا ہے جو ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
کریبیئن میں کئی برس کی خشک سالی کے دوران یہ امراض متعدد علاقوں میں پھیل چکے تھے اور حال ہی میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ان کے پھیلاؤ میں شدت آگئی اور چونکہ امکان ہے کہ یہ بارشیں 4 سے 6 ماہ لگاتار برسیں گی اس لیے وہ علاقے جہاں سیلاب کے پانی کے بہاؤ کا مناسب انتظام نہیں وہاں مچھروں کے ذریعے پھیلنے والے امراض کسی نئے المیے کو جنم دے سکتے ہیں۔
طبّی تحقیق کے مطابق ڈینگی ایک بہت تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے اور اس وائرس کی 4 اقسام ہیں جنہیں باالترتیب ڈینگی وائرس 1،2،3 اور 4 کے نام دیے گئے ہیں۔ یہ وائرس عموماً مادہ مچھر کے کاٹنے سے جسم میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر دن کے اوقات میں پانی کے ذخیروں جیسے حوض، ٹنکی یا جوہڑ وغیرہ کے پاس کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قدرتی آفات اور پاکستان
ایسے گھر جہاں صفائی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا اور گھروں کے باہر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں وہاں ان مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے مرض کی علامات فوراً ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ اگلے 3 سے 6 دن تک متاثرہ شخص معمول کے کام سر انجام دیتا رہتا ہے۔