انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں سوراخ انسانی غلطی یا سازش؟
1969 میں نیل آرم سٹرانگ کی چاند پر محدود چہل قدمی کے بعد سائنسدان شدت کے ساتھ ایک ایسے خلائی مرکز کی کمی محسوس کر رہے تھے جو نہ صرف خلا میں آسانی سے رسائی میں ہو بلکہ اسے طویل عرصے تک خلائی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
اسی لیے بین الاقوامی خلائی مرکز کے طویل المیعاد منصوبے کا باقاعدہ آغاز 1998 میں ہوا جس کے لیئے زمین سے فاصلے پر نچلے درجے کے مدار " لو ارتھ آربٹ"میں 248 میل ، یا چار سو کلومیٹر کی بلندی پر ایک جگہ منتخب کی گئی جسےزمین سے سادہ آنکھ سے دیکھنا ممکن ہے۔
15 ممالک کی نمائندہ 5 اسپیس ایجنسیاں جن میں امریکا کی "ناسا"، روس کی "روس کاسموس"، یورپین ممالک کی "ای ایس اے"، "کینیڈین سپیس ایجنسی" اور "جاپان ایرو سپیس ایجنسی" شامل تھیں، نے مشترکہ طور پر اس کی تعمیر شروع کی۔ ابتدائی طور پر اس کے مختلف حصوں، جس میں لیبارٹری، بھاری مشینری اور شمسی توانائی سے چلنے والے سولر پینلز شامل تھے، کو روس کی اسپیس شٹل کی مدد سے ایک ایک کر کے خلا میں لیجا کر آپس میں جوڑا گیا جبکہ اس کے بعد بھی وقتا ََ فوقتا ََ اس کی مرمت اور تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ اور اب سولر پینلز سمیت اس کی کل جسامت ایک امریکی فٹبال کے میدان جتنی، جبکہ وزن تقریباً انتالیس ہزار کلو گرام ہے۔
بلاشبہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی و انجینئرنگ کا منصوبہ ہے جو دنیا بھر کے ماہرینِ فلکیات ، سائنسدانوں اور خلا بازوں کو ارضیات، فلکیات اور ماحولیات پر تحقیق کرنے کے لیے ایک مکمل پلیٹ فارم فراہم کرنے کے ساتھ ہر طرح کے جدید آلات سے پوری طرح لیس ہے اور اسی وجہ سے یہ دنیا بھر کی سائنسی خبروں کا مرکز بنا رہتا ہے۔
پچھلے ہفتے بین الاقوامی خلا ئی مرکز ایک دفعہ پھر سب کی توجہ کا مرکز بن گیا جب امریکی تحقیقاتی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے یہ اس میں ایک سوراخ ہو جانے کا اعلان کیا گیا۔
اگرچہ اس سوراخ کے باعث خلائی مرکز اور اس میں فی الوقت موجود عملے کے 6 افراد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور سوراخ کو ابتدائی طور پر ایک خاص قسم کے ٹیپ سے بھر دیا گیا ہے جو مرکز میں موجود خلا باز وں نے ضرورتاً اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ مگر یہ محض ایک عارضی حل ہے اور مکمل مرمت کے لیے خلائی مرکز کے عملے اور جانسن اسپیس سینٹر ہاسٹن کے درمیان مسلسل مشاورت جاری ہے۔
اگرچہ خلائی مرکز میں وقتاً فقتاً تبدیلیاں اور مرمت کی جاتی رہتی ہے اور روس اور امریکہ اسے 2022 تک فعال رکھنے پر آمادہ ہیں لیکن اس دفعہ اس معمولی سے سوراخ کی خبر اس لیے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی، کیونکہ ناسا کی جانب سے اس کی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی گئی جسے بعد ازاں ناسا اسپیس فلائٹ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ہٹا دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق 2 ملی میٹر کے قطر کے اس ننھے سے سوراخ سے ہوا لیک ہوکر خلائی اسٹیشن کے اندر مسلسل بھر رہی تھی اور اگر اسے فوری طور پر مناسب طریقے سے پُرا نہیں گیا تو اس کے باعث محض 18 دن میں پورا خلائی مرکز ہوا سے بھر سکتا ہے۔ یہ سوراخ خلائی مرکز کے جس حصے میں مشاہدہ کیا گیا وہ روس کی ملکیت ہے اس لیئے خلائی ایجنسی روس کاسموس نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر ایک کمیشن قائم کیا ہے۔
اگرچہ ابتدا میں ایسا محسوس ہوا تھا کہ یہ سوراخ خلا میں آزادانہ پھرتے ہوئے کسی نوکیلے ننھے شہابیے کے خلائی مرکز سے ٹکرانے کے باعث پیدا ہوا جس کی تصدیق خلائی مرکز میں سب سے زیادہ قیام کرنے والے خلاباز سکاٹ کیلی نے بھی کی کہ شہابیوں کا خلائی مرکز سے ٹکرانا اور کچھ حصوں کو اس کے باعث نقصان پہنچ جانا ایک معمول کی بات ہے اور مرکز کے قیام سے بعد سے 20 سال میں ایسے لاتعداد واقعات ہو چکے ہیں اور خلائی مرکز کے شہابیوں کا اسپیس ڈیبریز سے ٹکرانے سے ہونے والے نقصان کی مرمت کے لیے خلابازوں کو باقاعدہ ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔
مگر چند روز گزر جانے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سوراخ بیرونی عوامل کے بجائے کسی اندرونی شے کا کارنامہ تھا۔
واضح رہے جس حصے میں یہ سوراخ دیکھا گیا ہے وہ روسی ساختہ ہے اور روس کی راکٹ تیار کرنے والی کمپنی انرجیا راکٹ کا تیار کردہ ہے، لہذاٰ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ سوراخ جو دیکھنے میں ڈرل مشین سے کیے گئے ننھے سوراخوں کی طرح دکھائی دیتا ہے، یا تو اسے انرجیا راکٹ کے عملے کے کسی انجینئر سے یہ تیاری کے دوران غلطی سے ہوا مگر اس نے تحقیقات یا کسی اور ڈر سے اسے گلیو کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی۔