وہ مسکراہٹ جس کے گرد ہماری دنیا گھومتی تھی
27 اگست کو ڈی آئی جی اوڈھو کے ساتھ ایک اور میٹنگ میں اسٹریٹ کرائمز روکنے کے لیے اسالٹ رائفلز کے استعمال پر بحث ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح افغان جنگ کے بعد ہمارے ملک میں اس طرح کا اسلحہ عام ہوا جس کے نتیجے میں پولیس کو بھی اتنے ہی مہلک ہتھیاروں سے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسا بھاری اسلحہ دنیا میں کوئی بھی پولیس استعمال نہیں کرتی اور پاکستان میں پولیس کا محکمہ فوج کی استعمال شدہ بندوقعیں استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس جرائم کے خلاف اور مجرمان کو ہلاک کرنے میں اوسط کتنی بہترین ہے، اور یہ کہ پولیس کی جانب سے مارے گئے 10 میں سے ’صرف‘ 2 لوگ ’کولیٹرل ڈیمیج‘ تھے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس مقابلوں کے دوران 'کولیٹرل ڈیمیج' کے طور پر ہلاک ہونے والے 2 افراد میں سے ایک 10 سالہ بچی کے والدین کے طور پر ہمیں محکمہ پولیس سے کافی تحفظات ہیں۔
2 محکمے، جو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، 13 اگست 2018ء کی رات ہمارے نقصان کی وجہ بنے۔ ہم اس نظام پر سوال اٹھاتے ہیں جس نے ہمیں اس قدر پسماندہ کردیا ہے کہ ایک آزاد ملک کی سڑکوں پر ہم اسٹریٹ کرائم کا مقابلہ اسالٹ رائفلز سے کر رہے ہیں، جہاں ایک ڈاکو کو پوائنٹ بلینک فاصلے سے مارنے کے لیے ایک کانسٹیبل کلاشنکوف کی 7 گولیاں چلا دیتا ہے۔ مگر اس نے فائرنگ کی، اور نشانہ اتنا خطا تھا کہ اپنی گاڑی میں بیٹھی جشنِ آزادی کی خوشیاں مناتی ہوئی بچی کو ہی مار ڈالا۔
اب ایک ماہ بعد باآسانی رائفل کی گولی چلا دینے والے اہلکار معطل ہوکر بظاہر اپنے گھروں پر بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب ہماری زندگیاں برباد ہوچکی ہیں۔ ہماری گاڑی تھانے سے کلیئرنس کے ایک طویل انتظار کے بعد تباہ حال اور اپنی قیمت گنوا کر ورک شاپ میں کھڑی ہے۔ دوسری جانب پولیس نے کاغذی کارروائی کے بارے میں بالکل درست معلومات فراہم کیں مگر معاوضے کی کوئی پشیمان پیشکش نہیں کی گئی۔
جب عمل کو این ایم سی لے جایا گیا تو اسے ابتدائی طبی امداد نہیں دی گئی۔ اسے خون نہیں چڑھایا گیا، اسے مجوزہ ہسپتالوں تک منتقل کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ جب طبی اسٹاف (جن سب نے زندگیاں بچانے کا عہد کیا ہوا ہے) کو بچی کے ساتھ چلنے کے لیے کہا گیا تو سب نے انکار کردیا۔ جب ہم نے ہسپتال سے ایمبیو بیگ لے جانے کی درخواست کی گئی، تو ایک 10 سالہ بچی کے لیے یہ بھی منع کردیا گیا۔ امن فاؤنڈیشن نے ایمبولینس بھیجنے سے انکار کردیا اور یوں لگا جیسے ہر کوئی ہماری انمول عمل کو سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہوئے دیکھتا رہا اور پھر پاس کھڑا اس کے مرنے کا انتظار کرتا رہا۔
اس رات پولیس اور صحت کے شعبوں نے اپنے بس میں موجود ہر کوشش کی کہ میری بچی زندہ سلامت اپنے گھر نہ لوٹے۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ وہ یومِ آزادی اور اس کی اپنی سالگرہ کبھی نہ دیکھے۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ وہ کبھی بھی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ نہ ہنسے، نہ گائے اور نہ اسے گلے لگائے۔ ہماری چھوٹی بیٹی آنیہ اب بھی بڑی بہن کی موت کو سمجھنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور صدمے سے باہر آنے کی ناامید کوششیں کر رہی ہے۔ دوسری جانب ہم اب بھی یہ سمجھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں کہ ہماری عمل کے بغیر کس طرح واپس زندگی کی جانب آیا جائے، گاڑی میں بیٹھا جائے، سڑک پر نکلا جائے، کام پر پہنچا جائے، اور دن گزارا جائے۔
ہماری بیٹی کو محکمہ پولیس اور ہسپتال نے قتل کیا ہے اور جب ہماری عمل ہم سے لے لی گئی تو پولیس، ہسپتال اور ریاست بے حسی سے آگے بڑھ گئے۔ مگر ایک اور بیٹی اور اس ملک کے کروڑوں بچوں میں سے ایک کے والدین کے طور پر ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ سب دوبارہ نہ ہو۔
ہم والدین اور ہر فکرمند شہری سے کہتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر اٹھیں اور اصلاحات کا مطالبہ کریں۔ ہم احتساب چاہتے ہیں اور ان بے حس محکموں سے انسانیت اور ہمدردی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ہمارے معاشرے اور اس کے نظام میں بہتری اور انصاف چاہتے ہیں اور ہمیں یہ سب ابھی چاہیے۔
شہریوں کے سوالات اور ان کے جوابات
دی کاز اسکول (The CAS School)، جہاں عمل عمر زیرِ تعلیم تھی، کے پرنسپل سمیع مصطفیٰ نے ڈان اخبار کے ایئوس (EOS) میگزین کو اپنے خط میں پاکستان کے پولیسنگ اور صحت کے نظام پر کچھ سخت سوالات اٹھائے ہیں۔
یہی سوال دوسرے حلقوں میں کئی فکرمند والدین اور عام شہری اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے سندھ پولیس کے ایس ایس پی ساؤتھ عمر شاہد حامد، نیشنل میڈیکل سینٹر کے ایڈمنسٹریٹر میڈیکل سروسز ڈاکٹر عمر جنگ اور امن فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس سے یہی سوالات لے کر رابطہ کیا۔
شہری بنام محکمہ پولیس
کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ ڈکیتی اور ایک 10 سالہ بچی کی افسوسناک موت ایک پولیس اسٹیشن کے بالکل ساتھ ہوئی؟ اگر کوئی پولیس اسٹیشن کے پاس بھی محفوظ نہیں تو پھر کہاں محفوظ ہوگا؟
عمر شاہد حامد: علاقے میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ جرائم کا گڑھ ہے جس کی وجہ سے یہاں پولیس اہلکاروں کو گشت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ مگر میں کہوں گا کہ موقعے کے لحاظ سے پولیس اہلکار کا ردِ عمل بالکل درست تھا۔
پولیس عمل کی ڈاکو کی گولی سے ہلاکت کی کہانی بار بار کیوں دہراتی رہی؟
عمر شاہد حامد: یہ ہماری جانب سے بدنیتی نہیں تھی بلکہ مزید ثبوتوں کے سامنے آنے پر صورتحال واضح ہوئی۔ شروعات میں اس حوالے سے ابہام تھا کیونکہ جن اہلکاروں نے ڈاکو کو مارا، انہیں بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک معصوم شہری کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ بینش اور عمر ایسی صورتحال میں فوراً ہسپتال کی جانب بھاگتے اور یہی ہوا۔ انہوں نے ٹریفک سگنل سبز ہونے کا انتظار کیا اور گاڑی فوراً ہسپتال کی جانب موڑ دی۔ ہمارے اہلکاروں کو اس حوالے سے معلوم نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ یہ واقعہ 13 اگست کو ہوا اور اگلے دن عام تعطیل تھی چنانچہ ہمیں 2 دن تک سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملی۔ فارنسک ثبوت ناکافی تھے۔ جب ایک بار مزید ثبوت سامنے آئے تو ہم پر صورتحال واضح ہوگئی۔
کیا پولیس اہلکاروں کے لیے مجرمان سے الجھنے کے لیے کوئی قواعد و ضوابط موجود ہیں؟ ان قواعد و ضوابط پر کتنی دیانتداری سے عمل کیا جا رہا ہے؟
عمر شاہد حامد: اس طرح کے واقعات جو لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہے ہوں، ان کے لیے آپ قواعد و ضوابط طے نہیں کرسکتے۔ یہ مکمل طور پر پولیس اہلکار کے فیصلے پر منحصر ہے جو کرنے کے لیے اس کے پاس ایک سے بھی کم سیکنڈ ہوتا ہے۔ فائرنگ کرنا روایت نہیں ہے۔
جو پولیس اہلکار ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے موقعے پر پہنچے تھے، کیا وہ اتنے تربیت یافتہ تھے کہ انہیں گولی چلانے کے احکامات کے ساتھ بھاری اسلحہ تھما دیا جائے؟ کیا پُرہجوم جگہوں پر بھاری اسلحے کا استعمال عقلمندانہ حکمتِ عملی ہے؟
عمر شاہد حامد: بھاری اسلحے کے متعلق بحث کرنا جائز اور منصفانہ ہے۔ اہلکار تربیت یافتہ تھے، مگر ظاہر ہے کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں مجرم کے اوپر فائرنگ کرنا پولیس اہلکار کا فوری فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر اہلکار اس نتیجے پر پہنچے کہ مجرم فائرنگ کرکے قتل کرنے پر آمادہ ہے، تو پولیس اہلکار بھی جواب میں فائرنگ کرسکتا ہے۔ یہ کہنے کے بعد بھی میں یہ کہوں گا کہ اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ کراچی میں پولیس کے لیے ماحول کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ گزشتہ 2 دہائیوں میں کراچی پولیس کی تعداد اور اس کا اسلحہ کئی طرح کے مجرمان سے کم ہی رہا ہے۔ سب سے پہلے پولیس کو بھاری اسلحہ 1990ء کی دہائی میں فراہم کیا گیا تھا تاکہ وہ خود کو لاحق خطرے سے نمٹ سکیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ آج صرف دہشتگرد ہی نہیں بلکہ اسٹریٹ کرمنلز بھی بھاری اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ مسئلہ دہشتگردی سے کہیں آگے کا ہے اور پولیس کے طور پر آپ کے پاس وہی کچھ [اسلحہ] ہونا چاہیے جو آپ کے مخالف کے پاس ہے۔
ایک سانحہ ہوا ہے، ایک 10 سالہ بچی ہلاک ہوئی ہے۔ اگر پولیس مزید ذمہ داری سے کام لیتی تو کیا اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا؟ کیا اس طرح کے سانحات سے مستقبل میں بچا جاسکتا ہے؟ اگر ہاں، تو کیسے؟
عمر شاہد حامد: ہم جب عمل کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو وہاں ہم عمل کے والدین سے بھی ملے۔ ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر ہم نے [کراچی کے] ضلع جنوبی میں آزمائشی بنیادوں پر پولیس اہلکاروں کو پستولیں فراہم کی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ عملی طور پر کتنا کارگر رہتا ہے۔
اس سانحے کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ وہ 2 پولیس اہلکار جو معطل ہوئے یا پولیس نظام جس نے غیر تربیت یافتہ، غیر پروفیشنل اور 'اسٹریٹ کرائم روکنے کے نام پر' بغیر سوچے سمجھے ٹریگر دبا دینے والے پولیس اہلکاروں کو بھرتی کیا؟
عمر شاہد حامد: یہ 2 طرح سے انتہائی افسوسناک سانحہ ہے۔ ایک والد کی حیثیت سے میں بینش اور عمر کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ مگر مجھے اس اہلکار سے بھی ہمدردی ہے جس نے ڈاکو پر گولی چلائی۔ اس نے وہی ایکشن لیا جو اسے بہتر لگا۔ اگر میں اس کی جگہ پر نہیں ہوں تو میں اس پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔
شہری بنام نیشنل میڈیکل سینٹر
شدید زخمیوں سے متعلق نیشنل میڈیکل سینٹر کا معیاری طریقہ کار (ایس او پی) کیا ہے؟
ڈاکٹر عمر جنگ: ہم وہ بہترین طریقہ کار اختیار کرتے ہیں جو دنیا میں دیگر جگہوں پر رائج ہے۔ لائے جانے والے ہر مریض کو ایمرجنسی روم لے جایا جاتا ہے جہاں پہلے ان کی حالت بحال کی جاتی ہے اور ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر انہیں آپریشن کی ضرورت ہو تو انہیں آپریشن تھیٹر بھیجا جاتا ہے۔ اگر انہیں آئی سی یو میں بھیجنے کی ضرورت ہو تو انہیں وہاں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جسم کے ایسے حصوں پر گولیوں کے زخم جن سے جان کو خطرہ نہ ہو، ان کی صورت میں ہم پہلے انہیں ابتدائی طبی امداد دیتے ہیں اور پھر مریضوں کو ہسپتال بھیج دیتے ہیں جہاں میڈیکو لیگل سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ مگر اس کیس میں یا پھر بینظیر بھٹو کی واپسی کے موقع پر کارساز دھماکے کے جیسے معاملات میں ہم پہلے علاج کرتے ہیں۔ کسی بھی مریض کو اس حوالے سے واپس لوٹایا نہیں جاتا۔ مگر ہم ڈیفینس پولیس تھانے کو ضرور اطلاع کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایسے تمام کیسز کا ریکارڈ ہوتا ہے اور آپ ان سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
عمل کو ضروری ابتدائی طبی امداد کیوں نہیں دی گئی اور فوراً آئی سی یو میں منتقل کیوں نہیں کیا گیا؟
ڈاکٹر عمر جنگ: جب عمل حادثے کے 10 سے 15 منٹ کے بعد ہسپتال لائی گئی تو اس کی آکسیجن سیچوریشن 20 سے 30 فیصد تک تھی۔ جان بچنے کے لیے کم سے کم 85 فیصد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسے سانس کی نالی لگائی گئی جسے ہاتھ سے پمپ کیا گیا۔ اس کا دل رک چکا تھا اور مصنوعی تنفس کے علاوہ وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی اور اس کا بلڈ پریشر نہیں تھا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ہم ایک بچی کی بات کر رہے ہیں۔ گولی اس کے سر کے پیچھے سے داخل ہوئی اور اس کی پیشانی سے نکل گئی۔ اس کا پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا ہے اور آپ تصدیق کرسکتے ہیں کہ اس کا آدھا دماغ اپنی جگہ موجود ہی نہیں تھا۔
میں احترام کے ساتھ اس دعوے سے اختلاف کرتا ہوں کہ ہم نے عمل کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ درحقیقت جب اسے اندر لایا جارہا تھا تو ہمارا اسٹاف پہلے ہی تیار تھا کیونکہ خاندان نے ہسپتال کے ڈائریکٹر کو پہلے سے فون کردیا تھا۔ انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کو آگاہ کردیا تھا کہ ایک آشنا کو ایمرجنسی کی صورتحال میں لایا جا رہا ہے چنانچہ سب سے بہترین نگہداشت کے لیے تیار رہا جائے۔ ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر ماہرِ اطفال ہی تھے۔ انہوں نے عمل کی حالت میں استحکام لانے کی کوشش کی مگر یہ دماغی زخم تھا اور اس کا اتنا خون بہہ چکا تھا کہ ہم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے۔ مگر پھر بھی ہم نے اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی۔
ایسی صورتحال میں ڈاکٹر ایپی نیفرین نامی ایک دوائی کا استعمال کرتے ہیں جو دل کی دھڑکنیں دوبارہ بحال کرنے (سی پی آر) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی ای سی جی دیکھیں تو آپ تصدیق کرسکتے ہیں کہ اسے ایپی نیفرین دیا گیا تھا۔ اگر کوئی شخص طبّی طور پر مردہ ہو، تب بھی ای سی جی میں اونچائی ریکارڈ ہوتی ہے۔ عمل کی ای سی جی میں بھی یہی چیز دیکھی جا سکتی ہے۔
ہسپتال انتظامیہ اور طبی عملے نے عمل کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنے میں مدد کیوں نہیں کی؟
ڈاکٹر عمر جنگ: بچی کی طبی طور پر موت واقع ہوچکی تھی۔ ہم اس کے بعد مدد نہیں کرسکتے تھے۔
شہری بنام امن فاؤنڈیشن
گولی لگنے جیسی نازک صورتحال میں ایمبولینس بھیجنے کے حوالے سے ان کا معیاری طریقہ کار (ایس او پی) کیا ہے؟ کیا انہیں ایمرجنسی پر ردِ عمل دیتے ہوئے مریض کو قریبی ہسپتال منتقل نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں مدد بھیجنے سے قبل ہسپتال میں ’بکنگ‘ کے لیے انتظار کرنا چاہیے؟
پے در پے کوششوں کے باوجود امن فاؤنڈیشن کے متعلقہ افسر نے اس مضمون کی اشاعت تک یقین دہانی کے باوجود جواب نہیں دیا۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 16 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔