خواتین کے طلاق کے اختیار کا معاملہ، 'ایسا کوئی نکاح نامہ زیرغور نہیں'
اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ کونسل میں ایسا کوئی نکاح نامہ زیرغور نہیں جس میں یہ شق شامل کی جائے گی کہ عورتیں شوہروں کو طلاق دے سکیں گی۔
خیال رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ وضاحت میڈیا میں رپورٹ ہونے والی ان خبروں پر کی ہے جس میں کہا جارہا تھا کہ کونسل ایسے نکاح نامے پر غور کررہی ہے جس کے نتیجے میں عورت کو خاوند سے طلاق لینے کا حق دے دیا جائے گا۔
ترجمان و سیکریٹری اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ 'البتہ کونسل ایک ایسے نکاح نامے اور طلاق نامے پر کام کر رہی ہے، جس کی زبان آسان اور عام فہم ہو'۔
مزید پڑھیں: شادی سے پہلے نکاح نامہ غور سے پڑھنا کیوں ضروری ہے
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ نیز اس حوالے سے نظام کو مضبوط اور مربوط بنانے کے لیے قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ضروری شقیں شامل کی جائیں گی۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے واضح کیا کہ نکاح نامے میں شناختی کارڈ کا اندراج یقینی بنانے، نکاح خواں حضرات کا کردار مؤثر اور دستاویزی بنانے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔
ترجمان اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بھی واضح کیا کہ نکاح نامے اور طلاق نامے کے ڈرافٹ پر علماء کرام کو اعتماد میں لیا جائے گا اور باقاعدہ منظوری کے لیے کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل انگریزی میں شائع ہونے والے روزنامہ دی نیوز نے اپنی رپورٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ مجوزہ نکاح نامے میں نکاح پڑھانے والے شخص پر لازم ہوگا کہ وہ لازمی طور پر دولہن سے یہ پوچھیں کہ آیا ان کو اپنے خاوند سے طلاق لینے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سی آئی آئی کا بیک وقت 3 طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا مطالبہ
رپورٹ میں کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ 'قانونی طور پر نکاح خواں پر یہ لازم ہوگا کہ وہ دولہن سے شادی کے اختتام کے حوالے سے پوچھے'۔
یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کی تعداد 8 سے 20 ہوتی ہے جس میں ایک خاتون بھی شامل ہوتی ہیں، جس کا مقصد پارلیمنٹ کو قانون سازی میں اسلامی نظریات کے حوالے سے مدد فراہم کرنا ہے۔
طلاق یا خلا
ویسے تو موجودہ نکاح نامے میں خواتین کو طلاق کا حق استعمال کرنے سے متعلق شق موجود ہے تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خاتون کو عدالت سے خلع کے لیے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی عورت کے لیے سات فیصلہ کن لمحات
واضح رہے کہ خلع شادی ختم کرنے کا مشروط طریقہ کار ہے اور اس میں خاتون کو خاوند سے طلاق لینے کا حق نہیں ہوتا۔
خلع لینے کی صورت میں خاتون کو حق مہر چھوڑنا پڑتا ہے جبکہ اس کا فیصلہ عدالت میں ہوتا ہے اور اس کے لیے عورت کو وکیل کی خدمات بھی حاصل کرنا پڑتی ہیں۔