نگری نگری پھرا مسافر کی جلد میں مقید صفحات پر موجود 50 کہانیاں مجموعی طور پر اداس ہیں۔ مگر یہ اداسی بلاوجہ نہیں ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے ہر شخص کو ایسا ہی محسوس کرنا چاہیے۔ ہم جیسے وہ لوگ جو مرحوم آدم پٹیل اور 80ء کے پیٹے میں موجود مائی متو سے واقف نہیں ہے؟ آدم پٹیل، ایک صاحبِ ثروت زمیندار جو چاول اور گندم کی اپنی فصلوں تک ڈیموں کی وجہ سے دریا کا میٹھا پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے غربت میں اس دنیا سے چلے گئے۔ اور پھر مائی متو جن کے دیہات کو آگے بڑھتے سمندر نے روند ڈالا۔ ہم اس شان و شوکت کے بارے میں جانتے ہی نہیں جو کبھی موجود تھی اور اب ختم ہوچکی ہے۔ وجہ؟ یہ کہانیاں مرکزی دھارے کے میڈیا میں کہیں بھی نہیں سنائی جاتیں۔
ابوبکر شیخ کی کتاب پڑھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ ان جیسے علم رکھنے والے دیسی لکھاریوں کی اپنی سرزمین کے بارے میں تحریروں کا قحط کیوں ہے؟
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں سفرنامہ لکھنے کا مطلب ایک ایسی تحریر لکھنا بن کر رہ گیا ہے جیسے چوتھی جماعت کا کوئی طالبِ علم یہ لکھے کہ اس نے گرمی کی چھٹیوں میں کیا کیا۔
ابوبکر شیخ کی کتاب قدرت سے محبت کرنے والوں اور عام افراد، ہر کسی کے کتب خانے میں ایک گراں قدر اضافہ ہوگی۔ اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا تو اس کتاب سے ہمیں ان چیزوں کو بچانے کے لیے رہنمائی ملتی جو ہم تیزی سے گنوا رہے ہیں، پھر چاہے وہ قدرتی ہو یا تاریخی ورثہ۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک ضروری مطالعہ ہے جو اپنی آبائی سرزمین کے لیے لکھاری کے احساسات کو خود محسوس کرنا چاہتے ہیں۔
مگر خدشہ ہے کہ جو لوگ اہمیت رکھتے ہیں، انہیں شاید اس اہم کتاب کی موجودگی کا علم بھی نہ ہو۔ یہ کتاب بالآخر سندھ کی تسکین کے لیے اک دعا بن کر رہ جائے گی اور یہ ایک بڑا سانحہ ہوگا۔
کتاب: نگری نگری پھرا مسافر
مصنف: ابوبکر شیخ
پبلشر: سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور
آئی ایس بی این: 9693531426
صفحات: 272
یہ مضمون ڈان اخبار کے بکس اینڈ آتھرز سیکشن میں 14 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔