سورج کب کا اگ آیا تھا پر گرمیوں کی دوپہر میں ابھی وقت تھا۔ میں نے ایک بجے کے قریب بدین شہر کو چھوڑا اور جنوب کی طرف نکل پڑا، شہر سے باہر دو تین کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد ایک پُل آتا ہے۔ آپ جیسے ہی اُس سے گزرتے ہیں تو سارا لینڈ اسکیپ تبدیل ہو جاتا ہے۔ زمینوں میں جہاں فصلیں ہیں وہاں ہریالی ہے اور جن زمینوں سے گندم اور گھاس کٹ گئی ہے وہاں بھینسیں، بکریاں اور بھیڑیں گھاس کے تنکے ڈھونڈتی نظر آتی ہیں۔

اب یہ ہر ایک کی مرضی پر منحصر ہے کہ انہیں گھاس کھاتے دیکھے یا نہ دیکھے، لیکن میں تو دیکھتا رہا کہ میرے پاس یہ سب کچھ دیکھنے کے علاوہ اور کچھ دیکھنے کو نہیں تھا۔ شہر بہت دور رہ گیا تو اچھا راستہ بھی وہیں رہ گیا۔ اب سڑک کا نام رہ گیا ہے جس پر گاڑی چلتی کم ہے ہچکولے زیادہ کھاتی ہے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ میں بدین سے پچاس کلومیٹر دوُر اُس گاؤں میں جا رہا ہوں جو اس طرف سرحد کا آخری گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی جنوبی بغل میں لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) کا نمکین پانی سے بھرا نالہ بہتا ہے جس نے اس زرخیز پٹی کی زرخیزی کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے۔ اس فلاپ پراجیکٹ کے پیسے دیے ورلڈ بینک نے، غلط پلاننگ کی واپڈا نے، سزا ملی ان جیسے سیکڑوں زرخیز زمینوں، جھیلوں اور وہاں کی مکینوں کو۔


ایل بی او ڈی پراجیکٹ کا اصل مقصد سندھ کے تین اضلاع سانگھڑ، میرپورخاص اور نوابشاہ سے زیرِ زمین کھارے پانی کے سمندر میں اخراج تھا، تاکہ ان اضلاع میں زراعت کو بہتر بنایا جا سکے. زراعت تو بہتر ہوئی سو ہوئی، لیکن ٹائیڈل لنک کہلانے والا نالے کے آخری حصہ میں ڈیزائن کی غلطی نے سمندر کو زرخیز زمینوں تک آنے کے لیے راستہ فراہم کیا.

چنانچہ جب سے یہ نالہ تعمیر کیا گیا ہے، تب سے اتنا کھارا پانی سمندر میں نہیں گرا، جتنا سمندر سے اس میں آیا ہے. 2006 میں ورلڈ بینک نے ٹائیڈل لنک کو مکمل طور پر ناکام قرار دے دیا، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی.


اس آخری گاؤں میں کسی بسری ہوئی یاد کی طرح کبھی دھان کی مختلف اقسام کے کھیت لہلہاتے تھے۔ گاؤں کے مشرق، مغرب اور شمال میں میٹھے پانی کی جھیلیں تھیں۔ گھاس، پھوس، سرکنڈے ان جھیلوں کے کنارے اُگتے۔ کہتے ہیں وہ جھیل ہی کیا جس کے کنارے جاڑوں میں سرکنڈوں کی گائے کے دودھ جیسی سفیدی نہ جھولتی ہو! پھر ان جھیلوں میں کنول کے پھول کھلتے، جاڑوں میں مہمان پرندے آتے، اطراف میں چھوٹے چھوٹے میلے لگتے تو لوک داستانیں سُنتے سُنتے مشرق کے ماتھے پر صبح کی سُرخی پھیل جاتی۔ اوطاقوں پر مہمان آتے تو جاڑوں کی راتوں میں الاؤ جلتے اور زمانے کی باتوں میں آدھی رات کٹ جاتی۔

یہ وہ دن تھے جب 'آدم پٹیل' پر جوانی کسی ساون کی بارش کی طرح برستی تھی۔ اُس کے باپ کا نام علی بخش تھا۔ 400 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ساری کی ساری زرخیز و آباد زمین میں ہل چلانے کے لیے اس کے پاس بیلوں کے آٹھ جوڑے تھے۔

باپ کے گزرنے کے بعد یہ سب آدم پٹیل کا ہوا۔ شام کو شاندار گھوڑے پر وہ زمینوں کے چکر لگاتا۔ اپنی ذات برادری کا وہ بڑا تھا اس لیے 'پٹیل' کا لقب اس کا حق ٹھہرا۔ سارے چھوٹے بڑے فیصلے اس کی اوطاق پر ہوتے۔ وقت سب کا ہے، وقت کسی کا نہیں۔ اُسے بس گزر جانا ہے اور وہ گزر گیا۔ میں جب 2004ء میں آدم پٹیل سے ملا تب اس کا سب کچھ لُٹ چکا تھا۔ سارے علاقے کی خوبصورتیاں وقت نے اپنے بے رحم ہاتھوں سے نوچ لی تھیں۔

ایل بی او ڈی جہاں جہاں سے گزری، زرخیز زمین بنجر کرتی گئی۔
ایل بی او ڈی جہاں جہاں سے گزری، زرخیز زمین بنجر کرتی گئی۔
ایل بی او ڈی کی تعمیر سے زیریں سندھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
ایل بی او ڈی کی تعمیر سے زیریں سندھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔

آدم پٹیل پر سے جوانی ساون کی بارش کی طرح برس کر کب کی جا چکی تھی۔ اُس کے چہرے پر جھریوں نے جیسے آشیانہ بنا لیا تھا۔ وقت آپ پر سے دن، مہینے بن کر نہیں گزرتا، بلکہ ایک ایک پل بن کر گزرتا ہے اور اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ہر پل آپ کی روح کو روندتا گزرتا ہے، جس کا حساب چہرے پر جھُریوں کی شکل میں تحریر ہوتا جاتا ہے۔

"اس علاقے کی پہلی بدقسمتی سمندر کی بڑی لہر کی صورت میں 1954ء میں آئی، اس سمندری پانی سے اُس برس کی فصلیں برباد ہوئیں۔ لیکن پھر حالات کچھ برسوں میں بہتر ہوگئے۔" یہ بات آدم پٹیل نے مجھے اپنے گاؤں کی نہر پر کھڑے کیکر درخت کے نیچے جہاں ہم بیٹھے تھے بتائی۔

وہ مجھے جب بھی ملا، اُس کے پاؤں ننگے ہوتے، داڑھی بڑی ہوتی، کپڑے ڈھیلے ڈھالے اور بے ترتیب۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی اور قدرتی طور پر حافظہ غضب کا۔ جو بات پوچھو، وہ اگر اُسے معلوم ہوتی تو تاریخ، سن، دن اور ٹائم کے ساتھ آپ کو بتا دیتا۔ وہ پٹیل تھا، پر جب کسی این جی او کی کوئی میٹنگ ہوتی تو وہ سب سے آخر میں بیٹھا ہوتا، اپنے سر کو اثبات میں ہلا رہا ہوتا۔ اور آخر میں جو بھی بات کرتا اُس میں ہمیشہ اُمید اور توقع کی لو جلتی محسوس ہوتی۔

پھر کبھی کبھار وہ گاؤں کے مغرب میں بہتی ہوئی نہر کے مغربی کنارے پر کھڑے کیکر کے درخت کے نیچے بیٹھا رہتا تو میں بھی اُس کے ساتھ بیٹھ جاتا۔

ایک دفعہ میں آدم پٹیل کے ساتھ اُس کی زمین دیکھنے گیا۔ وہ چلنا نہیں چاہ رہا تھا۔ کون اپنی تمناؤں کی قبریں دیکھنا چاہے گا؟ لیکن میری ضد کی وجہ سے وہ میرے ساتھ چلا۔ دھوپ تھی مگر اس کے پاؤں ننگے تھے۔ ہم کچھ گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کے قریب سے گزر کر اُس زرخیز زمین پر گئے جہاں بیلوں کے آٹھ جوڑے ہل چلاتے تھے، جہاں چار سو ایکڑوں میں دھان کی ہریالی لہراتی، جہاں شام کو آدم پٹیل گھوڑے پر زمین پر چکر لگانے جاتا تھا۔

زراعت پر منحصر مقامی لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔
زراعت پر منحصر مقامی لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔
کئی دیہات زراعت تباہ ہونے کی وجہ سے خالی ہوچکے ہیں۔
کئی دیہات زراعت تباہ ہونے کی وجہ سے خالی ہوچکے ہیں۔

پھر آدم میٹھے پانی کی ایک سوکھی نالی پر کھڑا ہوگیا۔ اُس نے جنوب کی طرف اشارہ کیا جہاں دو تین ایکڑوں میں جنگلی گھاس اُگی ہوئی تھی اور حد نگاہ تک شوریدہ زمین تھی۔ نمک کے سفید ذرات تیز دھوپ میں چمکتے اور آنکھوں میں اُن کی روشنی چُبھتی۔

"یہ کیا ہے؟"

"یہ زمین ہے؟"

"یہ تمہاری زمین ہے؟"

"یہ میری زمین ہے"

"یہ وہ زمین ہے جہاں دھان کی فصل ہوتی تھی؟"

"یہ میری وہ زمین ہے جہاں دھان کی فصل ہوتی تھی۔" آدم پٹیل نے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح میرے سوالوں کے جواب دیے۔ دور سے کہیں ایک درد کی ہوک اُٹھی اور خاموشی چہار سُو پھیل سی گئی۔ ہم بغیر کچھ کہے واپس آئے۔ باہر تیز دھوپ تھی مگر کیکر کے نیچے چھاؤں میں ٹھںڈی ہوا بہتی تھی۔ اتنے میں مچھلی سے بھری ڈاٹسن گذری، ساتھ میں نورجہاں بھی گاتے گزریں "سب جگ سوئے ہم جاگے، تاروں سے کریں باتیں"۔ ڈاٹسن دور ہوتی گئی اور نور جہاں کی آواز بھی۔

"یہ سب ہوا کیسے؟ مطلب اتنی بربادی۔"

"یہاں کون کسی کی سنتا ہے سائیں"، آدم نے ہمیشہ کی طرح سگریٹ کا ایک ہلکا کش لیا اور دھوپ کی وجہ سے راستے کی طرف ایک آنکھ آدھی بند کر کے ایسے ہی دیکھنے لگا۔

ایل بی او ڈی کے ٹائیڈل لنک نے سمندر کو زرخیز زمینوں کا راستہ دکھایا۔
ایل بی او ڈی کے ٹائیڈل لنک نے سمندر کو زرخیز زمینوں کا راستہ دکھایا۔
اس ٹائیڈل لنک کی تعمیر سے سمندر کا پانی زرخیز زمینوں تک آ پہنچا ہے۔
اس ٹائیڈل لنک کی تعمیر سے سمندر کا پانی زرخیز زمینوں تک آ پہنچا ہے۔

پھر اُس نے بتایا کہ یہاں صرف میری زمین ہی نمک نہیں اگلتی، بلکہ علاقے کی ساری زمینوں کا ایسا ہی حال ہے۔ کس کے دو ایکڑ گئے تو کسی کے چھ۔ کوئی نہیں بچا۔ پہلے ایل۔بی۔او۔ڈی کے ٹائیڈل لنک نے سمندر کو ہماری ان زمینوں کا راستہ دکھایا۔ پھر اس ٹائیڈل لنک کی وجہ سے زیرِ زمین پانی نمکین ہوا اور زیرِ زمین پانی کی سطح بڑھی۔ پھر 1999ء والا طوفان آیا۔ پھر ایریگیشن والے بڑے زمینداروں کو پانی بیچ دیتے ہیں، اس لیے یہاں میٹھا پانی نہیں آتا۔ بڑی دوڑ دھوپ کی پر کوئی بات سننے والا نہیں ہے۔ سب برباد ہوگیا۔ آدم نے ایک ناکام سسٹم کو دہائی دی اور خاموش ہوگیا۔ کرتا بھی تو کیا.

گاڑی سے باہر اب تپتی دوپہر آگئی تھی۔ راستے کے ساتھ بہنے والی نہر میں پانی نہیں تھا اس لیے بہتی بھی نہیں تھی، مگر نہر کی مٹی اور ریت گیلی تھی، جس کا مطلب یہ کہ پانی کچھ دن پہلے بند ہوا تھا۔ کہیں کہیں نہر کے گڑھوں میں پانی کھڑا تھا جس میں عورتیں کپڑے دھوتیں اور اسی پانی میں چھوٹے بچے نہانے کے لیے چھوٹی سی چھلانگ لگا دیتے۔ اور اس طرح ان نہروں کے کنارے صبح ہوتی، شام ہوتی اور زندگی یوں ہی تمام ہوتی۔

پھر لینڈاسکیپ تبدیل ہونے لگا۔ ہریالی کم ہونے لگی اور سرحد کا آخری گاؤں نزدیک آنے لگا۔ راستہ مُڑتے ہی مغرب کی طرف وہ جھیل آئی جو کسی وقت میں میٹھے پانی کی جھیل تھی۔ اب چونکہ سمندر نے یہاں کا راستہ دیکھ لیا ہے، اس لیے سمندر کے نمکین پانی کی بڑی جھیل ہے اور جھیل کے کنارے روکھے اور بے رنگ ہیں کیونکہ نمکین پانی کے کنارے پھوس اور سرکنڈے نہیں ہوتے۔ زمین کا رنگ مٹیالے سے تبدیل ہوکر کالا سا ہوگیا ہے کیونکہ زرخیزی کی جگہ نمک نے لے لی ہے۔ گھاس پھوس کی جھونپڑیاں، سامنے سے نظر آنے والا ٹائیڈل لنک کا بند، جس کی ناکامی کا اعتراف ورلڈ بینک بھی کر چکا ہے، مگر اعتراف سے کیا ہوتا ہے۔ ایک زرخیز پٹی کے آنگن میں اس ایل بی او ڈی کے لنک نے ہمیشہ کے لیے موت تحریر کردی۔

یہاں میٹھا پانی تلاش کرنا بھوسے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
یہاں میٹھا پانی تلاش کرنا بھوسے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
اس ناکارہ منصوبے نے لاکھوں لوگوں کا روزگار چھین کر انہیں غربت کے منہ میں دھکیلا ہے۔
اس ناکارہ منصوبے نے لاکھوں لوگوں کا روزگار چھین کر انہیں غربت کے منہ میں دھکیلا ہے۔

سامنے کیکر کے درخت کی گھنی اور ٹھںڈی چھاؤں تھی مگر اس کے نیچے پٹیل آدم نہیں تھا۔ میں گاڑی سے اُترا اور آدم کو آواز دی۔ دوپہر کی دھوپ میں چہار سُو خاموشی کی ایک چادر سی بچھی ہوئی ہے۔ اس لیے میری آواز دور دور تک گئی۔ کچھ دیر کے بعد آدم نہیں آیا اُس کا بیٹا آیا۔ اُس کے بغل میں پھوس سے بنی زمین پر بچھا کر بیٹھنے کی چٹائی تھی۔

اُس نے درخت کے نیچے چٹائی بچھائی اور ہم اُس پر بیٹھ گئے۔ آدم کے بیٹے کی قمیض کولہے سے پھٹی تھی۔ پھر کچھ وقت گزر گیا کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ میں بار بار اُس پُلیا کی طرف دیکھتا جہاں سے آدم پٹیل آتا تھا، لیکن منظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دھوپ اور خاموشی گہری ہونے لگی تب پتہ چلا کہ آدم اب کبھی نہیں آئے گا۔

400 ایکڑ زرخیز زمین کا مالک آدم پٹیل، جو منصوبہ سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔
400 ایکڑ زرخیز زمین کا مالک آدم پٹیل، جو منصوبہ سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔

اُس کے بیٹے نے جب یہ بتایا تب اُس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ باپ کے بچھڑنے کے درد کی پھانس تھی جو اُس کے دل میں چُبھتی تھی۔ ویرانی اور اُداسی اور گہری ہوگئی۔ اس کیکر کے مغرب میں سامنے ایک درویش کی درگاہ ہے اور قبرستان بھی۔ آدم اس قبرستان کی ٹھںڈی منوں مٹی کے نیچے ابدی نیند سویا ہوا ہے۔ ایک وقت میں زمانہ اس کی نہیں سُنتا تھا اور اب آدم پٹیل کسی کی نہیں سنے گا۔

اس علاقے میں کئی ایسے آدم ہوں گے جن کے درد ہم نہیں جانتے۔ پر یہاں کے سب لوگوں کو پانیوں نے مار ڈالا ہے۔ سمندر کو راستہ دکھانے والے ایل بی او ڈی کے پراجیکٹ نے، طوفانوں کے پانیوں نے، سمندر کے آگے بڑھتے ہوئے پانی نے، اور میٹھے پانی کی کمی نے سب کچھ چھین لیا ہے۔

آدم پٹیل کہتا تھا کہ اگر ایریگیشن حکام پانی اوپر والے زمینداروں کو نہ بیچیں تو یہاں کی زمینیں اتنی بے بس اور بیوہ کی طرح نہ ہوتیں۔ صحیح کہتا تھا کہ جب زمین میں میٹھا پانی نہ آئے اور دھان نہ پھوٹے تو زمین بیوہ ہی ہوئی نا!

باہر دھوپ ہے اور لینڈ اسکیپ تبدیل ہونے لگا ہے۔ آدم کا گاؤں پیچھے رہ گیا ہے۔ اب اُس گاؤں میں کوئی 'پٹیل' نہیں ہے کیونکہ آدم، جس کی زمینوں کو پانیوں نے مار ڈالا، جس کے بیٹے کے کولہے سے قمیض پھٹی ہوئی ہے، وہ اب جا چکا ہے۔

اب وہ کیکر کا پیڑ تپتی دوپہروں میں اکیلا ہوگا، ویرانیاں اب اس کی ساتھی ٹھہریں، کیونکہ اُس سے باتیں کرنے والا آدم پٹیل ایک برس پہلے اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔

تبصرے (16) بند ہیں

Khan Apr 07, 2016 06:24pm
آخر کب اس علاقے کی تقدیر بدلے گی، خیرخواہ
Saeeda sager Apr 07, 2016 07:02pm
آدم پٹیل پر سے جوانی ساون کی بارش کی طرح برس کر کب کی جا چکی تھی۔ اُس کے چہرے پر جھریوں نے جیسے آشیانہ بنا لیا تھا۔ وقت آپ پر سے دن، مہینے بن کر نہیں گزرتا، بلکہ ایک ایک پل بن کر گزرتا ہے اور اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ہر پل آپ کی روح کو روندتا گزرتا ہے، جس کا حساب چہرے پر جھُریوں کی شکل میں تحریر ہوتا جاتا ہے۔@ ہمیشہ کی طرح تحریر میں محسوسات کی ایک گہرائی ہے جو روح میں اتر جاتی ہے،،،کیا خوب کہا کہ وقت پل پل ہوکر گذرتا ہے،،،جہاں جہاں ناانصافی ہوگی وہاں ہر جگہ ایک آدم ہوگا،،،یہ ایک ناکام ترین منصوبہ تھا،،،کھایا کسی اور نے بھگت یہاں کہ لوگ رہے ہیں،،،اور حالت یہ کہ کوئی پرسان حال نہیں،،،،رب رحم کرے،،،،،ایک اور دل میں اتر جانے والی کو خوبصورت تحریر شیخ صاحب،،،،،،لکھتے رہئے اللہ تبارک و تعالی آپ کو ہمت دے،،،،آمین
sardar bhayo Apr 07, 2016 07:37pm
Impressive profile of Adam Patel, esa lgta h jesy dard ko samet lya hy, sb ka dard ek h jb zamenen bawa hojati hen tb log bhi yateen hojate hen, Abu Bakar Shaikh sb ne pori history batae h or waha ki tabahyon ko bht ache andaz se likh k bayan kya hy, or technical experts ki waja se LBOD ny jo nuqsanat dye uska zkr kya hy. great Sain
سہیل یوسف Apr 07, 2016 10:28pm
ایل بی او ڈی کی تباہ کاریوں پر میں نے بھی لکھا ہے ۔ لیکن اعتراف ہے کہ اس سے بہترین اور پر اثر تحریر میں نے اب تک نہیں پڑھی۔ بھائی ابوبکر، اس تحریر کو اس سال آگہی ایوارڈ کے لئے بھیجیں۔ اس پر ویڈیو بنائیں اور انگریزی میں تحریر کریں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے کہ آپ کا قلم ان لوگوں کے لئے ہے جن کی آواز بیاباں میں گھٹ جاتی ہے۔ ڈان کا بہت شکریہ ۔ دل سے پڑھی جانے والی تحریر۔
یمین الاسلام زبیری Apr 08, 2016 05:35am
حاصل مطالعہ: دور سے کہیں ایک درد کی ہوک اُٹھی اور خاموشی چہار سُو پھیل سی گئی۔ ہم بغیر کچھ کہے واپس آئے۔
عثمان راھوکڑو Apr 08, 2016 09:04am
آرٹیکل ھۓ کہ درد کا سمندر ھۓ، جب ابوبکر شیخ کی تحریر پڑھنے لگا ایسا لگا میں ان کے ساتھ ہوں، وہ ایل بی او ڈی کی تباہکاریاں میری آنکہوں کے سامنے تھیں، کیکر کے درخت کے نیچے آدم پٹیل کے آنسو میں ابوبکر کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ رہا تھا، ایک آدم نہیں کتنے آدم ہیں جن کا درد شیخ کی تحریر سے ٹپک رہا ھۓ، ابوبکر شیخ نے کیا خوب لکھا ھۓ
غلام شبیر لغاری Apr 08, 2016 09:08am
ایک تھا آدم پٹیل ، ابوبکر شیخ کی پراثر اور بھتریں تحریر اور تصاویر ۔
Abubaker shaikh Apr 08, 2016 10:54am
@سہیل یوسف سہیل یوسف صاحب ہمت افزائی کیلئے شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوبکر شیخ
Abdul Apr 08, 2016 12:39pm
Heart breaking account indeed. On the name of development, people suffer. They loose everything. But ironically development agencies including World Bank hardly learn any lesson. Agencies and their practitioners are interested in their own profit, salaries and extravagant lifestyle. Adam's ironic story is not the only case, there are similar case studies around the world from Ethiopia to Sindh. The irony continues in a same fashion and the 'development' is applauded while the poor 'Adam' decries and dies.
Arsalan Akhtar Apr 08, 2016 02:47pm
شرم آنی چاہیے ھمارے حکمرانوں کو۔ اللہ اس قوم کے حال پر رحم فرماۓ۔
Yasmen Shah Apr 08, 2016 04:13pm
Article k bad ankhen bheg jati hen, log zilton ki mot mar rahy hn or ye hukmranon k pet nhn bharty...shaikh sahb ye buhat bara kaam hy, un logon ki zban banen jo zilton k regzaron main siskty siskty mar jaty hen, ap k qalam main qudrat ny wo taqat or jazba bhara hy jis ka asar sedha dil pr hota hy, naki k is kam ko karty rahiay k ye hi asli khidmat hy. YASMEN SHAH
Mushtaq Shaikh Apr 08, 2016 05:27pm
Very impressive true story by Mr Abu Bakar Shaikh is eye opener for those who are making the decision of any project without complete feasability and after effects. Very poor decision
A Sidhi Apr 08, 2016 06:20pm
وقت سب کا ہے، وقت کسی کا نہیں۔ اُسے بس گزر جانا ہے.
imdad khattak Apr 09, 2016 10:30am
ek bahot dard nak tahreer abu bakr sahib ap k alfaz ny jaisy es elaqay k dard ko taza kr diya hu jes ko ab har parrhny wala mahsoos kary ga اس ناکارہ منصوبے نے لاکھوں لوگوں کا روزگار چھین کر انہیں غربت کے منہ میں دھکیلا ہے۔ a sad mysterious story
Nasrullah Jarwar Apr 09, 2016 07:56pm
Sir Shaikh great , i like your artical becouse your artical is voice of my heart . .... Only Nasrullah Jarwar journalist from tando bago pakistan
رمضان رفیق Apr 09, 2016 09:00pm
نمکین سمندر کا پانی ان آنکھوں تک چلا آیا ہے، جیسے کسے اپنے کی موت پر کسی اپنے کو تسلی نہیں دی جا سکتی ، بس ساتھ بیٹھ کر رویا جاتا ہے، جو تصاویر کیمرے سے نہ بن سکیں وہ لکھنے والے نے قلم سے بنا دیں۔۔۔۔بہت پر اثر تحریر ہے۔۔۔۔۔