اور اگر یہی کافی نہیں تھا تو جنرل مشرف پھر مقامی حکومتوں کا اپنا وژن لے کر آگئے۔ کچھ پولیس افسران نے معمولی تنازعات کی وجہ سے انہیں مشورہ دیا جس کی بنیاد پر انہوں نے انتظامیہ سے وہ ذرا سے اختیارات بھی واپس لے لیے جس کی عدلیہ نے اجازت دی ہوئی تھی۔ چنانچہ اب ہمارے پاس ایسی انتظامی سروس ہے جس کے پاس اپنے کوئی حقیقی اختیارات نہیں مگر اس سے امن و امان سے لے کر تعلیم، صحت، صفائی، غیر قانونی تجاوزات، خوراک کی صفائی تک زمین پر موجود ہر چیز کا خیال رکھنے کی امیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں۔
حکومت اور عوام سول سرونٹس سے 1960ء کی دہائی والی سروس جیسی کارکردگی کی امید رکھتے ہیں مگر یہ احساس نہیں کرتے کہ اس وقت انتظامیہ کو شیر سمجھا جاتا تھا جبکہ آج کی سول سروس بغیر دانتوں والا شیر ہے۔ یہ صرف تب مؤثر ہوتی ہے جب غریبوں اور کمزوروں پر بات آئے۔ جیسے ہی کوئی سول سروس کے سامنے مزاحمت کرے یا اس کی حکم عدولی کرے تو سول سروس چھپ جاتی ہے۔
ہم پولیس فورس میں اصلاحات لانے اور اسے مؤثر بنانے کی الگ تھلگ کوششیں کر رہے ہیں۔ جب حکومتی رٹ مؤثر تھی تو پولیس اور مجسٹریسی ایک ہی سکے کے 2 رخ تھے۔ اب 'ایگزیکٹیو مجسٹریسی' کے لفظ کا پولیس مذاق اڑاتی ہے۔
10 نوجوان لڑکوں کے بغیر روک ٹوک پوری ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو بند کروا دینے (جیسا کہ میں نے ذاتی طور پر تحریکِ لبیک کے حالیہ احتجاج میں دیکھا) اور ماڈل ٹاؤن آپریشن میں معصوم لوگوں کے قتل کے درمیان کچھ ہے ہی نہیں۔ 1960ء کی دہائی میں مشتعل ہجوم سے نمٹنا مجسٹریٹ کی ذمہ داری ہوتی تھی چاہے وہ یہ کام حربے سے کرتے، قائل کروا کر، مجسٹیریل طاقت کے ذریعے فی الفور ایکشن لے کر یا پھر آخری اقدام کے طور شیلنگ یا لاٹھی چارج کے لیے پولیس کو حکم دے کر اور اگر سب کچھ ناکام ہوجائے تو گولی چلانے کا ایک قانونی حکم دے کر۔ ذمہ داری مجسٹریٹ کی ہوتی، نہ کہ پولیس کی اور یوں پولیس اپنے خلاف ایکشن سے بچی رہتی۔
سول سروس تباہ کرنے کی اس جاری کہانی میں تازہ ترین قسط تمام ڈپٹی کمشنروں، ایس پیز، کمشنرز اور ڈی آئی جیز کی سرکاری رہائش گاہوں کی فروخت ہے کیونکہ یہ 'بہت بڑے' ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اس مقصد کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو 24 ہزار سرکاری جائیدادوں کی فہرست بھیجی گئی ہے۔ یہ دیکھنا نہایت دلچسپ ہوگا کہ حکومت کیسے اپنی اس بااصول اور مساوی پالیسی پر علمدرآمد کرتے ہوئے ڈیویژنل کمانڈرز اور کور کمانڈرز کی سرکاری رہائش گاہوں کو فروخت کرتی ہے۔
حکومتی جائیدادیں فروخت کرنے سے کچھ ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں جن کی وصولی شاید وزارتِ خزانہ نوٹ بھی نہ کرے، مگر ان سے ملک میں ریاست کی شان و شوکت ہمیشہ کے لیے کم ہوجائے گی اور ہمارے ہوشیار نوجوانوں کو سول سروس میں شامل ہونے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔